سابق نائب صدر جمہوریہ محمدحامدانصاری سے خصوصی انٹرویو
عبدالباری مسعود
سابق نائب صدر جمہوریہ محمدحامدانصاری آج کل اپنی سر گزشت بعنوان
BY MANY A HAPPY ACCIDENT: Recollections of a Life
کی وجہ سے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔جس میں انہوں نے کئی ایسے امور کا تذکرہ کیا ہے جن میں ، وزیراعظم کی اچانک آمد، و شکوہ، اقلیتوں میں عدم سلامتی کے بڑھتے احساس اور سیکولزرم کے انحطاط جیسے اموربھی شامل ہیں ۔ اس سے موجودہ بر سر اقتدار طبقہ کو پریشانی ہورہی ہے ۔ دائیں بازو کے عناصر اس پر چیں بہ جبیں ہیں۔ بالخصوص ایک نجی چینل نے جو اپنی جانبدارنہ خبرنگاری کی وجہ سے جانا جاتا ہے ، انصاری صاحب کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ انصاری صاحب ( 84سال) کو 2007 میں یو پی اے کے دورحکومت میں نائب صدر کے عہدہ کے لیئے منتخب کیا گیا تھا اور 2012 میں جو دوبارہ اس منصب پر فائز کیئے گئے اس سے پہلے وہ قومی اقلیتی کمیشن کے چیر مین رہے۔ اس سے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جہاں سے انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انڈین فارین سرویس کا امتحان پاس کیا تھا۔ وہ25 سال تک سفارت کار رہے اور اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل مندوب بھی رہے۔ نائب صدر ہونے کے ناطے وہ پارلیمان کے ایوان بالا کے دس سال تک چیرمین بھی رہے ۔
ان کی کتاب کے حوالے سے راقم الحروف نے حامد انصاری کا ایک خصوصی انٹرویو لیا جس کے اہم اقتباسات ۔
سوال: 2014بحیثیت نائب صدر جمہوریہ آپ اقتدار کے ایک اہم رکن رہے ہیں۔ اقتدار کی تبدیلی رونما ہونے کے بعد سے ملک کے حالات جس رخ پر جارہے ہیں ۔ اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔
جواب: یہ ایک جامع نوعیت کا سوال ہے ۔ ایک سوسائٹی ( معاشرے) کی حیثیت سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں جیسا کہ ہر معاشرہ پیش رفت کرتاہے۔ کوئی بھی معاشرہ جامد نہیں رہتا ، ہم بھی سماجی ، اقتصادی اور سیاسی طور پر مختلف محاذوں اور میدانوں میں پیش رفت کررہے ہیں ۔ ایک تکثیری معاشرہ ہونے کے باعث ہمارے لیئے کئی فوائد ہیں بشرطیکہ ہم اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی صورت میںہم سر خرو ہوسکتے ہیں۔
سوال: آپ دس سال تک نائب صدرجمہوریہ اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا یا راجیہ سبھا کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور ایوان کی کارروائی آپ نے بڑے باوقار طریقہ سے چلائی ہے ۔ اس حوالے سے آپ نے اپنی سر گزشت میں بعض تبصرے کیئے ہیں۔ خاص طور سے وزیراعظم نریندر مودی کا اچانک آپ کے کمرہ ( چیمبر) میں داخل ہونا اور بل پاس نہ ہونے کا شکوہ کرنا؟
جواب:میں نے اول روز سے یہ کہا کہ میرا کردار ہاکی میچ کے ایک ریفری کی طرح ہے جسے ایک ضابطے کی کتاب اور سیٹی تھمادی جاتی ہے وہ کھیل کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہے لیکن وہ کھلاڑی نہیں ہوتا اور یہی پہلو اہم ہے۔ چاہے وہ میدان کے اس جانب ہو یا اٗس جانب وہ ہمیشہ ایک مشاہد کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور جب تک کھیل ضوابط کے مطابق ہورہا ہے اس کا کچھ زیادہ کام نہیں ہوتا۔اگر کوئی فال یا غلطی کرتا ہے تو ریفری حرکت میں آتا ہے۔ میں نے بحیثیت چیئر مین مختلف ادوار اور مختلف دنوں میں ایوان کی کارروائی چلائی لیکن ایک مشاہد اور ریفری کی طرح ۔
سوال: لیکن کتاب میں آپ نے مودی کی آمد کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اور یہ انکشاف کیا کہ وہ شکوہ کررہے ہیں کہ آپ ایوان میں شور و غل میں بل پاس نہیں ہونے دے رہے ہیں نیز راجیہ سبھا کا ٹی وی چینل ان کی حکومت کی پاسداری نہیں کررہا ہے وغیرہ وغیرہ! یہ معاملہ کافی موضوع ِ بحث بنا ہوہے ۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جواب: دراصل لوگ بات کا بتنگڑ بنارہے ہیں ۔ جو بھی وزیراعظم ہیں یا وزراء وہ چیئرمین کے کمرہ میں آتے ہیں اور ملاقات کرتے ہیں۔جہاں تک وزیر اعظم مودی کی چیئرمین سے ملاقات کا معاملہ ہے یہ کوئی معمول کے برخلاف عمل نہیں ہے۔ سوائے اس کے وہ اس موقع پر بغیر اطلاع کیئے اچانک آوارد ہوئے ۔ عموماً جب وزیر اعظم جب کہیں جاتے ہیں تو اس کا ایک پروٹوکل ہوتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ مذکورہ امور کے بارے میں ان ( وزیراعظم ) کا ایک نقطہ نظر تھا میں نے اس کا جواب اپنے نقطہ نظر سے دیا۔ بس معاملہ وہیں ختم ہوگیا ہے اتنی سی بات تھی ۔
سوال: آپ کہہ رہے ہیں کہ سیکولرزم کو کمزور کیا جارہا ہے؟جس پر دائیں بازو کے حلقوں نے واویلا مچا رکھی ہے جو اس وقت اقتدار پر قابض ہیں؟
جواب: دیکھئے ، اس معاملہ میں اسٹیٹ یا ریاست کا غیر جابندارانہ طرز عمل کمزور پڑرہا ہے۔ ریاست ( حکومت ) کو آئین کے دائرہ میں رہ کر امور انجام دینا چاہیے ۔ اس بات کو آئین کے پہلے صفحہ یعنی دیباچہ میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سیاسی مساوات ، معاشی برابری اور سب سے آخر میں مگر سب سے اہم اخوت اور بھائی چارہ۔باالفاظ دیگر تمام شہری اس اخوت کا جز ہیں اور ان سب کے درمیان میل جول اور روابط کی بنیاد اخوت کا وہ دائرہ ہونا چاہیے جس کی تاکید آئین کرتا ہے۔ یعنی ایک شہری کو دوسرے شہری پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے ،تمام باشندے برابر ہیں اور وہ یکساں حقوق کے حامل ہیں نیز سب کے فرائض بھی یکساں ہیں۔ ہم نے بحیثیت ایک سوسائٹی اکثر موقعوں پر خصوصی رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہ غلط ہے ۔ یہ ایک پر فریب اصطلاح ہے اور ایک خطرناک چیز ہے۔ اس کا استعمال ایک خاص پس منظر میں ہوا ہے جسے ہم ریزرویشن کہتے ہیں۔ اس کے لیئے صحیح اصطلاح ایجابی اقدام یا (Affirmative action) ہے۔ اس سے مراد ہے کہ جب کوئی کلاس روم میں یا سماجی ترقی یا تعلیمی طور پسماندہ ہے تو اس کی مد د کے لیئے ہاتھ بڑھایا جائے۔ لہذا ایجابی قدم ایک بہتر اصطلاح ہے بہ نسبت ریزرویشن کے۔
سوال: عموماً مسلم حلقوں میںیہ تاثر ہے کہ ’’ سرکاری مسلمان‘‘ جرات سے کام نہیں لیتے اور صاف گوئی سے بچتے ہیں۔ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات کا آپ نے اپنی کتاب میں اشارہ کرکے اس خیال کو غلط ثابت کرنے کوشش کی ہے؟
جواب: یہ کوئی سرکاری اور غیر سرکاری مسلمان کا معاملہ نہیں ہے۔ ہم سب اس ملک کے شہری ہیں۔ کوئی سرکاری اور غیر سرکاری نہیں ہے۔ یہ اصطلاح بحث کی گرما گرمی کے دوران سوچ سمجھے بغیر وجود میں آئی ہے ۔ کیا کوئی کسی کے بارے میں اس کے شہری ہونے کی بات سے انکار کرسکتا ہے، نہیں! بحیثیت شہری ہم سب اس کے ملک شہری ہیں۔ انصاف و عدل فراہم کرنے کے معاملے میں کمزوریاں اور خامیاں ہوسکتی ہیں۔ آئین میں انصاف و عدل جن معنوں پر استعمال ہوا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ انصاف کا مطالبہ کرے اور اسی طرح ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے پورا کرے۔
سوال: آج مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقات میں عدم سلامتی کا احساس بڑھتا جارہا ہے ۔ آپ بحیثیت نائب صدر جمہوریہ ایک آئینی منصب پر دس سال تک فائز رہے نیز قومی اقلیتی کمیشن کے بھی سربراہ رہے۔ اس حوالے سے موجودہ عدم سلامتی کیفیت کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے ؟
جواب :مسلمانوں میں عدم سلامتی کی کیفیت ہمیشہ سے رہی۔ لیکن آپ کو ترقیاتی عمل میں شرکت کرنی ہوگی اور اپنے جائز حصہ کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ آپ یہ نہیں کہ کہہ سکتے کہ میں اس میں حصہ نہیں لوں گا اور میرا حصہ مجھے اپنے گھر بھیجا جائے۔ اگر حکومت سو روپیئے دیتی ہے تو اس میں میرا بھی حصہ ہے۔
سوال : پھر وزیراعظم مودی کے اس ریمارک پر کیا کہیں گے جو انہوں نے آپکی وداعی تقریب میں کہے تھے ؟
جواب: ان کا ( وزیراعظم) ایک تاثر اور احساس ہے ۔ اس پر مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ تاہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ وزیراعظم ( مودی) نے ایک نہیں دو تقریریں کیں۔ ایک راجیہ سبھا اور دوسری بال یوگی آڈیٹوریم میں جس میں ارکان پارلیمنٹ موجود تھے۔ بہرحال انہوں نے یہ بات کیوں اس طرح کے انداز میں کہی میں اس بارے میں نہیں جانتا۔ میں اس میں جانا نہیں چاہتا۔ میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔ اور اپنی بات اس شعر کی مدد سے کہوں گا کہ
مجھ پر الزام اتنے لگائے گئے
بے گناہی کے انداز جاتے رہے
سوال: آپ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا تھا وہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ خاص طور سے ایک مسلم حلقہ کا احساس ہے کہ آپ اپنے موقف پر قائم نہیں رہے جو آپ نے اپنی سرگزشت میںبیان کیا ہے ؟
جواب : یہ بات میرے علم میں بھی آئی ہے ۔ میں نے وہ باتیں کہیں جو آئینی لحاظ سے میرے لیئے صحیح تھیں۔ لیکن بحیثیت کمیونٹی میرے بھی کچھ فرائض ہیں یعنی تعلیم ، بااختیاربنانا اور تعلیم نسواں وغیرہ ۔ یہ عوامل ہیں جن کے باعث مسلمان پسماندہ ہیں۔ یہ کام مسلمانوں کو خود اپنے طور پر انجام دینا ہوگا۔ میں ریاست سے کیوں توقع کروں کہ وہ ہماری خواتین کی مدد کرے گی؟ ۔میرے پاس بعض چیزیں ہیں ۔آپ کے پاس بڑے بڑے اوقاف ہیں وہ کس کام کے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس کو آپ نے استعمال کیوں نہیں کیا۔
میرا کہنا ہے کہ کیوں جنوبی ہند نے اس میدان میں شمالی ہند کے مقابلے میں بہتر کام کیا۔ آپ حیدرآباد جائیں، کرناٹک، کیرلا، تمل ناڈو اور آندھر پردیش جائیں، سب نے اچھا کام کیا ہے۔ مہاراشٹر میں بھی آپ کو اچھی مثالیں ملیں گی۔ اس کے برخلاف یوپی ، بہار ، بنگال، راجستھان، اور مدھیہ پردیش میں آپ کو پسماندگی کے مظاہر ملیں گے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ آپ نے یہ نہیں کہا وہ نہیں کہا۔ بھئی آپ نے اپنے لیئے خود کیا کیا۔
سوال : نجی چینل کے رپورٹر نے جو ذاتی سوال کیا تھا کہ آپ کو ’’ سرکار نے نوازا‘‘ ہے پھر بھی آپ کو شکوہ کر رہے ہیں؟ اس پر کیا کہیں گے؟
جواب: ارے اس چینل نے تو بدمعاشی کی بات کی۔ میری کتاب کے ناشر( پبلشر) نے کتاب کی پبلسٹی کے خاطر اس انٹرویو کا اہتمام کروایا تھا۔ ان حضرت( رپورٹر) کو میں نے سنا دیا جو مجھے کہنا تھا۔
رہا ذاتی سوال ، میری پوری زندگی دیکھ لیجئے۔ اسکول میں تعلیم پائی ، یونیورسٹی میں تعلیم پائی ۔ کیا وہ سرکار نے دی خود ہی کیا نا۔ اگر میر ے اچھے رزلٹ آئے تو کیا سرکار نے دیئے ۔ اگر میں مسابقتی امتحان میں کامیاب ہوگیا ، فارین سرویس میں داخل ہوگیا تو اپنی صلاحیت اور محنت کی بدولت پہنچا ،نا۔
سوال: آپ نے 25 سال سفارت کاری میں گزارے ، اسوقت ملک کی امیج بین الاقوامی سطح پر خراب ہورہی ہے ؟
جواب: دنیا تبدیل ہوچکی ہے ۔ آپ کوئی بند خول میں نہیں رہتے ہیں۔ یہاں ہونے والا کوئی واقعہ کی خبر پل بھر میںپوری دنیا میں پہنیچ جاتی ہے ۔ جو لوگ ہمارے ملک کے بارے میں اچھی بات کہتے ہیں وہ خراب بات بھی کہہ سکتے ہیں ۔ دہلی کوئی قلعہ بند شہر نہیں ہے یہاں بیرونی اخبارات کے نامہ نگار رہتے ہیں اور یہاں سے خبر نگاری کرتے ہیں۔
سوال: آپ نے ایک عرصہ مشرق وسطی کے ملکوں میں بطور سفارت کار گزارا ، وہاں کی جو تغیر پذیر صورت حال ہے بالخصوص سعودی عرب او ر ایران میں کشمکش کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب : سب سے پہلے میں مڈل ایسٹ کی اصطلاح کو غلط سمجھتاہوں۔ یہ مغرب کی گھڑی ہوئی اصطلاح ہے۔ صحیح اصطلاح مغربی ایشیا یا ویسٹ ایشیاء ہے۔ ہم جغرافیائی اعتبار سے جنوب میں اور چین مشرق میں واقع ہے۔ عرب دنیا اور ایران کے درمیان نااتفاقی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان اشتراک اور تعاون کا سلسلہ جاری تھا جب یہ دونوں امریکہ کا تعاون کررہے تھے ۔شاہ کے زمانے میں ایران کے سعودی عرب سے اچھے تعلقات تھے۔ تاہم ایران میں انقلاب کے بعد اس میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ اس کے باوجود تعلقات قائم رہے۔
سوال : عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: عرب ملکوں نے ایک مخصوص موقف اختیار کیا ہے یہ ان کا سیاسی نقطہ نظر ہے ۔ اسرائیل بحیثیت ایک ملک وجود رکھتا ہے۔ چاہیے وہ جیسے بھی معرض وجود میں آیا ہو ۔ اب وہ اپنا ایک وجود رکھتا ہے ۔ اب آپ اس کے ساتھ یا کسی اور دوسرے ملک کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔ تاہم کسی وجود کو تسلیم کرنا محض زندگی کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔بہر حال اقوام متحدہ میں کتنے رکن ممالک ہیں۔
سوال : آپ کمیونٹی کے ایک اہم رکن ہونے کے ناطے اور اپنے تجربات کی روشنی میں مسلمانوں کو کیا مشورہ دیں گے؟
جواب : اس کا جواب بہت آسان ہے۔ خود کو بااختیار بنانا۔ میں سکھوں کی مثال پیش کرتا ہے۔ وہ ہمارے برادران وطن ہیں ۔ دیکھیں انہوں نے خود کو کسطرح منظم کیا ۔ جب وہ دہلی میں بطور پناہ گزین آئے تھے تو وہ کیمپوں میں مقیم تھے آج ان کے اپنے تعلیمی ادارے ہیں ، گردوارے ہیں۔ ان کے پاس زندگی کے بارے میں ایک اجتماعی سوچ و فکر و عمل ہے۔ اگر آپ کسی گردوارہ میں کھانے کے وقت جائیں تو وہ آپ کو اس میں شامل ہونے کے لیئے دعوت دیں گے ۔ یہ نہیں سوچیںگے کہ آپ کا تعلق کس مذہب یا طبقہ سے ہے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے ۔
سوال : آپ نے اپنی سر زگشت یا آپ بیتی لکھی ہے اس کا محرک کیا تھا ، کیا کوئی نیا تصنیفی منصوبہ زیر غور ہے۔
جواب : میرے بچوں نے اصرار کیا کہ میں اپنی زندگی کے بارے میں کچھ لکھوں۔میرے بعض دوستوں نے بھی اس پر زور دیا۔ اور ایک روز میںنے یہ لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور جب کوئی کام آپ شروع کرتے ہیں تو آپ ایک نظم کی پابندی کرتے ہیں۔ میں نے کبھی ڈائری نہیں رکھی۔ یہ سب میری یادوں پر مشتمل ہے ۔