قرض کا بوجھ بڑھ جانے سے فلاحی اسکیمات کی عمل آوری پر اثر ، پے ریویژن کے عمل پر سوالیہ نشان
حیدرآباد :۔ ریاست میں کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ معاشی صورتحال اتھل پتھل ہوگئی ہے ۔ آمدنی بڑی حد تک گھٹی ہے ۔ اخراجات میں اضافہ کے ساتھ قرض کا بوجھ بھی بڑھا ہے ۔ جس کا راست اثر فلاحی اسکیمات کی عمل آوری پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ جاریہ سال بھی پے رویژن پر عمل ہونے کے امکانات نہیں ہے ۔ سرکاری خزانہ خالی پڑا ہوا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے بعد ریاست کی آمدنی کے دروازے بڑی حد تک بند ہوگئے ہیں ۔ جاریہ سال اپریل میں جاری کردہ کاگ رپورٹ کی اعداد و شمار سے اس کا پتہ چلتا ہے ۔ ریاست کے سرکاری خزانے کو عام دنوں میں محکمہ رجسٹریشن سے ہر ماہ تقریبا 500 کروڑ کی آمدنی ہوا کرتی تھی جو کورونا اور لاک ڈاؤن کے بعد گھٹ کر 20 کروڑ تک محدود ہوگئی ۔ اسی مقدار میں ہونے والی اکسائز آمدنی 8 کروڑ تک محدود ہوگئی ہے ۔ جس سے ریاست کی مالی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جی ایس ٹی کے تحت گذشتہ سال اپریل میں 1600 کروڑ روپئے حاصل ہوئے تھے جاریہ سال اپریل میں اس کا نصف حصہ بھی وصول نہیں ہوا ہے ۔ پٹرول ، ڈیزل اور جی ایس ٹی کی دائرے میں نہ آنے والی دوسری فروخت کی آمدنی گذشتہ سال کے بہ نسبت 1200 کروڑ روپئے ٹیکس کی شکل میں گھٹ گئی ہے ۔ ریاست میں کورونا وباء عروج پر رہنے کے دوران مالیاتی سال 2020-21 کے پہلے مہینے اپریل میں آمدنی بڑی حد تک گھٹی ہے اور اخراجات میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ عام دنوں میں گذشتہ سال اپریل 2019 میں آمدنی زیادہ ہوئی تھی اور اخراجات کم تھے ۔ تاہم گذشتہ دو ماہ کے دوران خرچ اور آمدنی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوگیا ہے ۔ گذشتہ سال ریاستی خزانے کو جو آمدنی ہوئی تھی اس کا ایک تہائی آمدنی کا حصہ بھی سرکاری خزانے میں نہیں پہونچا ہے ۔ جب کہ قرض اور گرانٹس میں اضافہ ہوا مگر آمدنی گھٹ گئی ۔ جس کی وجہ سے جاریہ سال اپریل کے دوران قرضوں میں اضافہ ہوا ۔ تاہم مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کردہ گرانٹ ان ایڈ سے ریاست کو کچھ حد تک سنبھلنے کا موقع ملا ۔
گذشتہ سال اپریل میں مرکز کی جانب سے ریاست کو گرانٹ ان ایڈ کی شکل میں ایک روپیہ بھی وصول نہیں ہوا تھا ۔ لیکن اس سال اپریل میں گرانٹ ان ایڈ کے تحت 1402 کروڑ روپئے وصول ہوئے جہاں تک قرضوں کا معاملہ ہے ۔ سب سے زیادہ 5700 کروڑ روپئے کے قرض حاصل کئے گئے ۔ جاریہ سال اپریل میں ٹیکس آمدنی گھٹی ہے ۔ مگر اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے زیادہ قرض حاصل کرنا پڑا ہے ۔ گذشتہ سال اپریل میں 6646 کروڑ روپئے اخراجات ہوئے تاہم جاریہ سال اخراجات بڑھ کر 9018 کروڑ تک پہونچ گئے ۔ جاریہ سال 2019 اپریل میں ٹیکس کے ذریعہ 5226 کروڑ روپئے وصول ہوئے جاریہ سال اپریل میں صرف 1700 کروڑ روپئے ٹیکس سے وصول ہوئے گذشتہ سال ریونیو اخراجات 1585 کروڑ تھے ۔ جاریہ سال 4602 کروڑ ہے۔ گذشتہ سال 1561 کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا گیا تھا جاریہ سال اپریل 2020 میں 5709 کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا گیا ۔ حکومت کی آمدنی گھٹ جانے اخراجات کے ساتھ قرض کا بوجھ بڑھ جانے کی وجہ سے اس کا راست اثر فلاحی اسکیمات کی عمل آوری پر دیکھائی دے رہا ہے ۔
صرف رعیتو بندھو اسکیم اور شادی مبارک و کلیان لکشمی اسکیم کے چند زیر التواء چیکس کو منظوری دی گئی ماباقی دیگر فلاحی اسکیمات کی کوئی پیشرفت نہیں ہے ۔
ایک طرف بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں مگر حکومت مختلف کارپوریشن کے ذریعہ سبسیڈی پر دی جانے والی قرض اسکیمات کو روک دیا ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر نظر ثانی کا مسئلہ بھی کٹھائی میں پڑ گیا ہے جس سے بیروزگار نوجوانوں اور سرکاری ملازمین میں مایوسی دیکھی جارہی ہے ۔۔