ری پبلک آف ہندوتوا: آر ایس ایس کی بابت جانکاری

   

نئی دہلی : حالیہ چند برسوں میں آر ایس ایس (سنگھ)کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ 1925 ء میں قائم سنگھ کے بارے میں2014 سے پہلے تک چند کتابیں ہی موجود تھیں جو اکیڈمک اورکبھی کبھی مقبول طریقے سے سنگھ کی تاریخ، اس کے نظریات اور اس سے وابستہ اہم افراد کے بارے میں جانکاری دیتی تھیں۔سال 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی کامیابی نے ماہرین سماجیات اور انتخابی مبصرین کو حیران کر دیا۔ ایک دو سال کے شروعاتی پس و پیش کے بعد لوگوں نے یہ ماننا شروع کیا کہ بی جے پی کی اس کامیابی کے پیچھے سنگھ کے کارکن اور ان کی تنظیم تھی۔یہ سب جانتے ہیں کہ 1990 کے بعد کے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کو آسانی سے سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہندوستان میں انتخابی کامیابی تب تک ممکن نہیں ہے جب تک دلت ، بہوجن برادریوں کے سب سے بڑے انتخابی حلقے کو اپنی طرف نہ ملایا جائے۔ کانشی رام، مایاوتی، ملائم سنگھ یادو، رام ولاس پاسوان، لالو پرساد یادو اور ایچ ڈی دیوے گوڑا جیسے قائدین نے 1989 سے لیکر 2004 تک اس کو ثابت بھی کیا۔ بی جے پی، کانگریس اور یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتی تھیں۔ دلت بہوجن سیاسی عروج سے قبل ان کے ووٹر اور کیڈر کا بڑا حصہ ان برادریوں سے تعلق رکھتا تھا۔ ماہر بشریات بدری نارائن کی کتاب ’ری پبلک آف ہندوتوا ‘سنگھ کے اتنے بڑے اسٹرکچر میں‘تنظیم، نظریات اورشخص ، ایک ہی سرزمین پر کس طرح کام کرتے ہیں اور وہ کس طرح ایک ’ہندو جمہوریہ کے قیا م ‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔