زبان کاٹ لو لہجہ بدل نہیں سکتا

,

   

سوغاتِ مودی … کھلونے دے کے بہلانے کی کوشش
مودی بدل گئے یا پھر کوئی نئی سازش؟

رشیدالدین
’’کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں‘‘۔ وزیراعظم نریندر مودی کو پتہ نہیں کیوں اچانک غریب مسلمانوں کا خیال آیا۔ رمضان المبارک میں ’’سوغاتِ مودی‘‘ کے عنوان سے ملک بھر میں 32 لاکھ غریب مسلمانوں کو اناج پر مشتمل رمضان تحفہ پیش کرنے کا نہ صرف اعلان کیا گیا بلکہ بی جے پی کیڈر کے ذریعہ تقسیم کا عمل جاری ہے۔ نریندر مودی بدل گئے یا پھر یہ اُن کی نئی چال ہے، اِس کا خلاصہ جلد ہوجائے گا۔ گزشتہ 10 برسوں میں کبھی بھی مسلمانوں کی غربت کا خیال نہیں آیا اور وزارت عظمیٰ کی تیسری میعاد میں پہلی مرتبہ رمضان المبارک میں غریب مسلمانوں سے ہمدردی اچانک پھوٹ پڑی۔ نریندر مودی اور اُن کی حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ مودی بغیر کسی مطلب کے کسی کو دیکھتے تک نہیں۔ وہ غریب مسلمانوں کو تحفہ کیوں کر پیش کرنے لگے۔ گزشتہ 10 برسوں میں مسلمانوں کو دستوری، قانونی اور جمہوری حقوق سے محروم کیا گیا حتیٰ کہ شریعت میں مداخلت کی گئی لیکن اب غریب مسلمانوں کو ’’سوغاتِ مودی‘‘ کے نام پر کھلونا دے کر بہلانے کی کوشش ہے۔ سوغاتِ مودی ہے یا پھر سوغاتِ زحمت ہے، الغرض یہ اقدام کسی بڑے خطرہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مودی کے ایجنڈہ میں اور بھی بہت سے پلان ہیں اور غریب مسلمانوں کو خوش کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو دو گروپس میں تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ مسلمان بنیادی طور پر سادہ لوح واقع ہوا ہے اور اگر کوئی اظہار ہمدردی کرے یا پھر کچھ مدد کرے تو عام غریب مسلمان اُس کے مظالم کو بھلاکر تعریف کرنے لگتے ہیں۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ مسلم خواتین کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب جبکہ وقف ترمیمی بل 2024 لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظوری کا منتظر ہے اور ملک بھر میں مسلمانوں نے بل کی مخالفت میں آواز بلند کی ہے لہذا غریب مسلمانوں کو خوش کرنے سوغاتِ مودی کا نیا جال پھینکا گیا تاکہ ماہر شکاری نریندر مودی کے جال میں بھولے بھالے مسلمان پھنس جائیں۔ مودی کے دور میں 10 مرتبہ رمضان المبارک اور عیدالفطر گزری لیکن کیا اُس وقت مسلمان غریب نہیں تھے؟ مسلمانوں کی غربت کیا اقتدار کے گیارہویں سال دکھائی دی؟ گزشتہ 10 برسوں میں کئی مواقع ایسے بھی آئے جب نریندر مودی نے مسلمانوں کو عیدین کی مبارکباد دینا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ گزشتہ 10 برسوں میں مسلمانوں کو تعلیمی، معاشی اور سماجی طور پر نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا لیکن اچانک اب غریبوں کی یاد ستانے لگی ہے۔ سوغاتِ مودی کے درپردہ مقاصد اور عزائم بھلے ہی کچھ ہوں لیکن مودی حکومت کو جان لینا چاہئے کہ مسلمان غریب ضرور ہیں لیکن غیرت مند ہیں۔ غریبی ہی غیرت کا باعث ہوتی ہے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن دین اور شریعت پر حملے کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ اسلام اور شریعت پر بھی مسلمان سب کچھ قربان کرسکتے ہیں۔ مودی اِس سوغات کے ذریعہ اگر یہ تصور کررہے ہیں کہ وہ غریب مسلمانوں کا دل جیت لیں گے تو یہ اُن کی بھول ہے۔ شریعت اور دین کا معاملہ آجائے تو مسلمان فاقہ کشی کو ترجیح دے گا لیکن کسی اسلام اور مسلم دشمن کی سوغات کو قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے گا۔ ویسے بھی رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ کوئی بھی غریب بے یار و مددگار نہیں ہوتا کیوں کہ منجانب اللہ ہر غریب خاندان میں رمضان اور عید کی خوشیوں کا انتظام ہوجاتا ہے اور حکومتوں کی بھیک کی ضرورت نہیں پڑتی۔ رمضان المبارک کو چونکہ اُمت محمدیہ ﷺ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے لہذا کوئی بھی خاندان محروم نہیں رہتا۔ نریندر مودی کو اُس وقت مسلمانوں سے ہمدردی کیوں نہیں ہوئی جب ملک میں جگہ جگہ اُن کے نام لیوا غریب ٹھیلہ بنڈی اور فٹ پاتھ پر ترکاری، فروٹس وغیرہ فروخت کرنے والوں کو مار مار کر ہندو آبادیوں سے بھگارہے تھے۔ روزانہ گھوم پھر کر خاندان کی دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے والے غریبوں کو محض اِس لئے نشانہ بنایا گیا چونکہ وہ مسلمان ہیں۔ ہندو مذہبی مقامات سے مسلم تاجروں کا جبراً تخلیہ کرایا گیا اور اُن کے سامان کو نقصان پہنچایا گیا تاکہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکیں۔ جس وقت غریب ٹھیلہ بنڈی رانوں کو داڑھی پکڑ کر اور سر سے ٹوپی اُچھال کر مار پیٹ کی گئی اُس وقت مودی کہاں تھے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے دوکانات کے باہر مالکین کے نام تحریر کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تاکہ مسلم دوکانداروں کو نشانہ بنانے میں سہولت ہو لیکن مودی نے ایک لفظ نہیں کہا۔ اچانک آج غریب مسلمانوں سے ہمدردی کیوں؟ سوغاتِ مودی دراصل وقف ترمیمی بل کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ نریندر مودی نے جاریہ سال بہار اسمبلی انتخابات کے پیش نظر رمضان المبارک میں سوغات کی چال چلی ہے تاکہ نتیش کمار کے ساتھ اتحاد کو دوبارہ کامیابی حاصل ہو۔
مسلمانوں کے حق میں سوغاتِ مودی کا آغاز دراصل 2002 ء میں گجرات فسادات سے ہوا تھا جہاں ہزاروں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا اور اُن کی تجارت کو تباہ و تاراج کیا گیا۔ گجرات فسادات کے تجربہ کے ساتھ مودی نے نئی دہلی تک کا کامیاب سفر کیا اور وزارت عظمیٰ پر فائز ہوگئے۔ گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی نے مسلمانوں کو کئی ایسی سوغات پیش کی ہیں جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت، این آر سی، سی اے اے، این پی آر، بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ، مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر پابندی، اذاں پر پابندی، سڑک پر نماز کی ادائیگی پر پابندی، مسلمانوں کے گھر اور دوکانات پر بلڈوزر کارروائی، بابری مسجد کی اراضی کا عدالت کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کے لئے حصول، کاشی اور متھرا میں مساجد اور عیدگاہ پر مندر ہونے کی دعویداری، سنبھل کی جامع مسجد میں مورتیوں کی تلاش، ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلمانوں کا دن دھاڑے قتل، لو جہاد اور گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں نشانہ، مدارس پر پابندی حتیٰ کہ ٹیپو سلطان، بابر اور اورنگ زیب کے نام پر بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کیا مسلمانوں کے لئے اتنے سارے سوغات کم ہیں جو 600 روپئے کے اناج کے ذریعہ اُنھیں خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمان اناج نہیں چاہتا بلکہ اُسے عزت اور وقار چاہئے۔ دستور نے مسلمانوں کو جو حقوق فراہم کئے ہیں اُن کا احترام کیا جائے۔ ایسی سوغات کس کام کی جس میں عزت کو نیلام کرنا پڑے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کیا کچھ نہیں کہا تھا۔ قبرستان اور شمشان کا نعرہ نریندر مودی کا ہی ہے۔ مودی نے کہا تھا کہ دنگائیوں کو اُن کے لباس سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ہندوؤں کے منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دینے اور مسلمانوں کو زائد بچے پیدا کرنے والے جیسے القاب سے مودی نے نوازا تھا۔ ملک کے اثاثہ جات پر پہلا اختیار مسلمانوں کا ہے، یہ کہتے ہوئے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھائے گئے۔ انتخابی مہم میں مودی نے مسلمانوں کو درانداز اور غیر ملکی تک کہہ دیا تھا۔ نریندر مودی کی مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی سوغات بھی ہمیشہ یاد رہے گی۔ اسکالرشپ اور فیلو شپ کو ختم کردیا گیا اور اقلیتی بہبود کا بجٹ برائے نام ہوکر رہ گیا ہے۔ روزگار میں مسلمان پہلے ہی نظرانداز ہیں اور اب اُنھیں تعلیم سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں نریندر مودی کی مسلمانوں کے حق میں سوغاتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور اگر کوئی ریسرچ اسکالر چاہے تو اُن پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرسکتا ہے۔ نریندر مودی ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ اجنبی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں لیکن جب مسلم اور عرب ممالک پہونچتے ہیں تو اُن کی ڈرامہ بازی کا عروج دکھائی دیتا ہے۔ مسلم اور عرب حکمرانوں کے گلے پڑتے ہوئے اُنھیں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان محفوظ ہیں۔ افسوس تو اُن مسلم اور عرب حکمرانوں پر ہوتا ہے جو نریندر مودی کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز پیش کرتے ہوئے اپنی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کسی بھی مسلم حکمراں کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ نریندر مودی سے ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کے بارے میں سوال کریں۔ کیا مسلم اور عرب ممالک کی وزارت خارجہ کو ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کا علم نہیں ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہندوستان میں مساجد کا خاتمہ کرنے کی سازش ہے لیکن عرب ممالک اپنی سرزمین پر بُت خانوں کی تعمیر کی اجازت دے رہے ہیں۔ عرب حکمرانوں کو ہندوستان سے مدد کی کوئی ضرورت نہیں لیکن وہ مسلمانوں کے بارے میں سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ایسے حکمرانوں کو ٹرمپ سے سبق سیکھنا چاہئے جنھوں نے اپنے ڈیئر فرینڈ نریندر مودی کو میڈیا کے روبرو ’’ٹیرف کنگ‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ مودی کو جب ٹرمپ نے ٹیرف کنگ کہا تو عظیم جمہوریت کے وزیراعظم بغلیں جھانکتے ہوئے رہ گئے اور جواب دینے کی ہمت نہیں جٹا پائے۔ رہا سوال سوغاتِ مودی کا تو مسلمان اُن ہاتھوں سے کوئی بھی سوغات کس طرح قبول کرسکتے ہیں جن پر گجرات کے مظلوموں کے خون کے نشان ہیں۔ محشر آفریدی نے کیا خوب کہا ہے ؎
تمہاری سوچ کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتا
زبان کاٹ لو لہجہ بدل نہیں سکتا