زرعی قوانین پر عمل آوری معطل کرنے سپریم کورٹ کی تجویز

,

   

کسانوں کو احتجاج کا حق حاصل ، مذاکرات کی ضرورت : جسٹس بوبڈے

نئی دہلی : احتجاجی کسانوں کو دہلی کی سڑکوں سے ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ آج دوسرے دن سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ زرعی قوانین پر عمل آوری کو معطل کرے۔ عدالت عظمیٰ نے زور دیا کہ کسانوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کی یکسوئی کی جائے۔ عدالت کے اس ریمارک پر مرکز نے کہا کہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو کسان مذاکرات کیلئے آگے نہیں آئیں گے۔ سپریم کورٹ نے دہلی کے سرحدی علاقوں اور دہلی میں کسانوں کے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن ان کے احتجاج کی وجہ سے املاک کو یا کسی کی زندگی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ احتجاج کے مقامات سے کسانوں کو ہٹانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے نے کہا کہ احتجاجی کسان تشدد کو ہوا نہیں دے سکتے اور نہ ہی احتجاج کیلئے شہر کو بلاک کرسکتے ہیں۔ کوئی احتجاج اس وقت تک دستوری ہے جب تک وہ دوسروں کی زندگی کیلئے خطرہ نہ بن جائے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ مرکزی حکومت اور کسانوں کو مذاکرات کرنا چاہئے۔ جسٹس بوبڈے نے کہا کہ عدالت نے ایک غیرجانبدار کمیٹی کی تشکیل پر غور کررہی ہے جس کے سامنے فریقین اپنے مسائل اور موقف کو پیش کرسکتے ہیں۔ مرکزی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف پنجاب ، ہریانہ اور دیگر مقامات کے کسان، دہلی کے سرحدی مقامات بشمول سنگھو اور تکری پر مسلسل احتجاج کررہے ہیں جس میں تاحال 20 کسانوں کی موت ہوچکی ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کیا جائے جبکہ حکومت ،قوانین میں ترمیم کرنے کیلئے راضی ہے۔