عثمان شہید ایڈوکیٹ
زرِ مہر کی ادائیگی یا مہر کی رقم دلہن کونہ دینا مسلم معاشرہ میں خطرناک رجحان یا پھر خطرناک مسئلہ بن گیا ہے اور یہ مسلم سماج کے لئے ناسور بن گیا ہے۔بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ مہر کی عدم ادائیگی مسلم سماج میں کینسر جیسا ناقابل علاج مرض بن گیا ہے۔
مہر موجل ہو کہ مہر معجل بہرحال ادا شدنی ہے۔ ہر حال میں نوشہ کو مہر دینا ہے۔ مہر معجل دلہن کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور مہرموجل بوقت طلاق یا موت کے فوری بعدادا کیا جاسکتا ہے۔ مہر کی ادائیگی کا یہ مطلب نہیں کہ طلاق ہوئی ہے جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت ایسا سمجھتی ہے۔ قاضی صاحبان کا کام ہے کہ وہ مہر کے تعلق سے حقیقی موقف واضح کریں۔ اور اپنے خطبہ میں مسلمانوں کو سمجھائیں کہ مہر کیسا دیا جائے۔ مضمون نگار نے کسی محفل میں قاضی صاحبان کو مہر کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ مہر کے تعلق سے قاضی صاحبان بات کرنا گوارہ نہیں کرتے۔بس رسم نکاح نبھاتے ہیں۔
یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان یوں تو اسلام کے نام پر وجود میں آیا وہاں بھی اسٹیٹیس ثابت کرنے مہر باندھا جاتا ہے جیسے 5 لاکھ اور 10 لاکھ لیکن ادائیگی کرتے ہوئے میں نے کہیں سنا نہیں دیکھا۔ مہر ایک روپے بھی باندھاجاسکتا ہے لیکن ادائیگی ضروری ہے۔ ہمارے ہندوستان میں مہر کم تو باندھا جاتا ہے لیکن 90 فیصد مسلمان مہر کی رقم اپنی بیوی کو دینے طلاق دینے کے مرادف سمجھا جاتا ہے، یہ مناسب نہیں ہے۔ بڑی بدقسمتی اور بری بات ہے جب خاندان کے بڑے بزرگ مہر کا لینا برا سمجھتے ہیں، جبکہ مہر کی رقم شادی کے بعد بھی بڑھائی یا کم کی جاسکتی ہےAIR1934Cal.210 بشرطیکہ میاں بیوی دونوں راضی ہوں۔ نماز،روزہ، حج، زکوٰۃ کی طرح مہر بھی فرض ہے۔ مہر قرض ہے جو بیوی کو دینا ہر شوہر کے لئے ایسا ہی ضروری ہے جیسے نماز سے قبل وضو کرنا ضروری ہے۔ اگر مہر کی رقم ادا نہ ہو تو بیوی شوہر کے خلاف یا شوہر مرجانے کی صورت میں اس کی جائیداد کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔اگر ایسی صورت میں بچے بھی اپنے والد کے خلاف مہر کی رقم کی وصولی کے لئے دیوانی نالش کرسکتے ہیں ۔ AIR9133Alhabad329 اگر بیوی شوہر سے قبل انتقال کرجائے تو اس کی اولاد مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ 9(1)(B)provincial Insolvency Act اور مزید قواعد کے لئے ملاحظہ ہو AIR1941Nag.167, AIR1930 Alhabad580۔ ملک کے قانون کے لحاظ سے مہر کی رقم Actionableclaim کی تعریف میں آتا ہے۔ AIR1941Nag8. مہر یعنی طلاق موجل وصول کرنے کی مدت تاریخ مطالبہ سے شروع ہوتی ہے۔ جبکہ میاں بیوی نکاح میں ہوں AIR1937All.52۔اگر بیوی شوہر کے انتقال کے بعد بھی بعدمرور مدت مہر کی واپسی کا مطالبہ نہ کرے تو بھی مہر کی واپسی کا مطالبہ باقی رہتا ہے۔ خواہ نکاح کے بعد یہ ثابت ہوجائے کہ نکاح غیرقانونی ہوا ہے یا پھر یہ کہ نکاح کے بعد میاں بیوی میں تعلق پیدا نہیں ہوا ہے تو مہر دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ شافعی لاء میں کہا جاتا ہے۔ AIR1929All.359 ۔A mulim whomen is entitled to remain in possession of property of her husband unless dower amount is paid AIR1944 patna163، Dower-Transfer of property in lieu of dower- A transfer in lieu of a time barred debt is valid. (Zohra Bibi v.Ganesh parsad, AIR 1925 oudh 267.) یہ تو ہوا ملک کا قانون۔اب دیکھیں قرآن کیا کہتا ہے:
سورۃ البقرہ آیت نمبر 236 کے لحاظ سے اللہ کہتا ہے کہ عورت کے پاس جانے سے پہلے ان کو طلاق دے دو تم مہر نصف ادا کرو۔پارہ والمحصنت سورہ نساء آیت نمبر 25 میں اللہ فرماتا ہے جو جنگ میں تمہارے ہاتھ لگے ان کے سوا تمام عورتیں تمہارے لئے حلال ہے اور تم بدکاری سے بچنے کی غرض سے کچھ مال بطورِ مہر دے کر نکاح میں لے آئو، اور اس بات پر تم پر الزام نہیں کہ مہر مقرر کرنے کے بعد تم آپس میں کمی یا بیشی کرلو۔ اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے تم شوق سے استعمال کرسکتے ہو۔(آیت:4 سورہ النساء)یہ تمام قرآنی احکامات کی رو سے مہرنہ دینا ناقابل معافی جرم ہے۔لہٰذا مسلمانوں کو ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوںکو اگر مہر نہ دیا ہوتو وہ ادا کردیں اور اللہ کے پاس سرخرو ہوجائیں۔