زلمے خلیل زاد کو یو ایس کانگریشنل کمیٹی کے روبرو حاضر ہونے کی ہدایت

   

امریکی اور افغان عوام کو طالبان کیساتھ کی جانے والی بات چیت کا لب لباب جاننے کا پورا حق
ایوان کمیٹی کے صدرنشین برائے خارجی امور ایلیٹ اینجل کا خلیل زاد کو مکتوب

واشنگٹن ۔ 6 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ایک اعلیٰ سطحی کانگریشنل کمیٹی نے جمعرات کے روز افغان مصالحت کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ زلمے خلیل زاد سے کہا ہیکہ طالبان کے ساتھ جو امن معاہدہ ہوا ہے اس کے بارے میں کمیٹی کو تفصیلات فراہم کریں۔ معاہدہ کا مسودہ فی الحال متعددحصص برداروں کے درمیان گشت کروایا جارہا ہے۔ زلمے خلیل زاد کے نام تحریر کئے گئے ایک مکتوب میں جسے بعد میں میڈیا کیلئے بھی جاری کیا گیا، کانگریس مین ایلیٹ اینجل نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے ربط پیدا کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اس معاہدہ پر محض قیاس آرائیاں نہ کی جائیں بلکہ زلمے خلیل زاد کو کمیٹی کے روبرو جاریہ ماہ پیش کیا جائے تاکہ تمام تفصیلات دوبدو حاصل ہوجائیں۔ ایلیٹ اینجل ایوان کی کمیٹی کے خارجی امور کے صدرنشین ہیں۔ اپنے مکتوب میں انہوں نے کہا کہ اس طرح امریکی عوام کو بھی طالبان معاہدہ سے متعلق کی گئی بات چیت کے لب لباب سے واقف ہونے کا موقع ملے گا۔ ایلیٹ اینجل کا یہ بھی استدلال ہیکہ قبل ازیں زلمے خلیل زاد کو تحریر کئے گئے دو مکتوبات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ (اینجل) یہ بات سمجھتے ہیں کہ خلیل زاد کی ٹیم نے طالبان کے ساتھ ایک فریم ورک معاہدہ کیا ہے

اور اس کی ایک نقل ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں میں تقسیم کی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسے افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہیکہ امریکی اور افغان عوام کو یہ حق حاصل ہیکہ وہ طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے لب لباب سے واقف ہوں۔ لہٰذا زلمے خلیل زاد کی کانگریشنل کمیٹی میں حاضری اور ان سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے افغانستان حکمت عملی کے بارے میں دیگر ارکان کو بھی مطمئن کیا جاسکے گا لہٰذا یہ بات ایک بار پھر کہنا ضروری ہیکہ زلمے خلیل زاد کی کانگریشنل کمیٹی کے روبرو حاضری لازمی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہیکہ افغانستان کی جنگ امریکہ کو بہت مہنگی پڑتی جارہی ہے جہاں اب تک ہزاروں امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور جنگ گذشتہ 18 سال سے جاری ہے۔ امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہیکہ وہ افغانستان سے باہر نکل آئے ورنہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اب طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کے کئی مراحل طئے ہوچکے ہیں۔ ایلیٹ کے مطابق طالبان کے ساتھ جو معاہدہ ہورہا ہے وہ محض امریکہ کے افغانستان سے دستبردار ہونے پر مبنی نہیں ہونا چاہئے بلکہ افغانستان میں حقیقی طور پر امن کا بول بالا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خلیل زاد نے اگر اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا تو انہیں دیگر متبادل پر غور کرنا پڑے گا۔
یمن میں اس وقت قانونی طور پر قائم کی گئی حکومت کا کوئی متبادل نہیں ہے اور یمن میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی دینا کارگر ثابت نہیں ہوگا۔