زندگی ایک معمہ ہے ہمیشہ خوبصورت نہیں ہوتی

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
دس جولائی 2025 کو مسٹر جگدیپ دھنکر نے بڑی خوشی کے ساتھ اور پرجوش انداز میں کہا تھا کہ وہ اگسٹ 2027 ء میں سبکدوش ہوں گے لیکن ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح 21 جولائی کو صرف چند گھنٹوں میں اُنھیں نائب صدرجمہوریہ کے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا ( استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا ) اور اب اُن کے لئے سابق نائب صدر کے الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں ۔ وہ ملک کے نائب صدر تھے اور بہ اعتبار عہدہ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے صدرنشین بھی تھے ۔ 21 جولائی کو مسٹر جگدیپ دھنکر نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیدیا اور اس طرح صدرنشین راجیہ سبھا کا عہدہ بھی چھوڑ دیا ۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر 10جولائی اور 21 جولائی کے درمیان کیا ہوا کہ اُن کی زندگی اجیرن کردی گئی یا ہوگئی اور زندگی مصیبت بن گئی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پیر 21جولائی کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس معمول کے مطابق شروع ہوئے ۔ اس سے ایک دن قبل حکومت نے مختلف سیاسی جماعتوں کے فلور لیڈران کا رسمی اجلاس طلب کیا ، اس طرح کے اجلاس حکومت کی جانب سے طلب کئے جانے کی ایک روایت رہی ہے جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ بلکہ تیقن دیا جاتا ہے کہ تمام مسائل پر مباحث ہوں گے اور ایوان میں بنا کسی رکاوٹ و خلل کے کارروائی جاری رکھنے میں حکمراں جماعت کے ارکان ( حکومت ) اور اپوزیشن ایک دوسرے سے تعاون و اشتراک کریں گے لیکن افسوس صد افسوس کہ حالیہ برسوں کے دوران ہندوستانی پارلیمنٹ کے کام کاج میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان اس مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں پایا گیا کہ ایوان میں کیا مباحث ہوں گے ، کب مباحث ہوں گے اور کیسے مختلف مسائل پر بحث کی جائے گی حالانکہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا سوال ہے راجیہ سبھا میں اپوزیشن عام طورپر قاعدہ 267 کے تحت بحث کرنے پر اصرار کرتی ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ یہ ایک پارلیمانی ضابطہ ہے جس کے تحت فوری اہمیت کے حامل مسئلہ پر مباحث کئے جاتے ہیں اور اسے تحریک التواء کہا جاتا ہے ۔ واضح رہیکہ ضابطہ 267 کا استعمال کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے لیکن بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے ہمیشہ اسے حکومت پر عدم اعتماد یا ملامت کی مانند سمجھا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ پچھلے 11 برسوں میں صرف نومبر 2016 ء میں جب نوٹ بندی پر بحث ہوئی ضابطہ 267 کے تحت ہی اجازت دی گئی تھی ۔ جب سے مسٹر دھنکر صدرنشین راجیہ سبھا مقرر کئے گئے انھوں نے ضابطہ 267 کے تحت کسی بھی بحث کی اجازت نہیں دی ۔
21 جولائی بھی مختلف نہیں تھا یہ سب کچھ جیسے دھنکر کے بیکرٹ کے مطابق تھا ۔ بی جے پی کے ایک رکن نے قاعدہ 167 کے تحت نوٹس دی تاکہ پہلگام دہشت گردانہ حملہ اور آپریشن سندور پر بحث کی جاسکے جبکہ اپوزیشن کے کئی ارکان نے اسی مسئلہ پر قاعدہ 267 کے تحت نوٹس دی ۔ صدرنشین راجیہ سبھا نے بی جے پی رکن کی تحریک کسی دن پیش ہونے والی تحریک تسلیم کیا اور اپوزیشن کی تحریک کو اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ وہ ضابطہ اور طریقہ کار کے مطابق نہیں تھیں ( کسی کو آج تک یہ نہیں معلوم کہ قاعدہ 267 کے تحت کوئی ایسی تحریک کیسے لائی جائے جو ضابطوں اور طریقہ کار کے عین مطابق ہو ) ۔ وداعی تقریب اور نہ ہی دھوم دھام : صدرنشین راجیہ سبھا نے دوپہر 12 بجکر 30منٹ پر بزنس اڈوائزری کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اُس اجلاس میں جے پی نڈا اور مسٹر کرن رجیجو نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کی جس میں کچھ دیر تبادلہ خیال کے بعد اجلاس شام ساڑھے چار بجے تک کیلئے ملتوی کردیا ۔ جب بزنس اڈوائزری کااجلاس دوبارہ منعقد ہوا دونوں وزراء غیرحاضر رہے ۔ شائد اسی بات پر ناراض ہوکر صدرنشین نے رات 9 بجکر 25منٹ پر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیدیا اور اس کیلئے طبی مشورہ کو بنیاد بنایا ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب مسٹر جگدیپ دھنکر نے استعفیٰ دیا تب کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے استعفیٰ واپس لینے کیلئے مسٹر دھنکر پر زور نہیں دیا ۔ خود بی جے پی کی قیادت اور قائدین نے بھی ایسا نہیں کیا ۔ 22 جولائی کو نائب صدرنشین نے صدرنشین کا عہدہ مخلوعہ ہونے کا اعلان کردیا جس سے یہ پوری طرح واضح ہوگیا کہ حکومت نے جگدیپ دھنکر کو بناء کسی وداعی تقریب اور جوش و خروش کے گھر کاراستہ دکھانے کا فیصلہ کرلیا ۔
بی جے پی کی ناشکری اور احسان فراموشی : بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کو مسٹر دھنکر کی بہت زیادہ شکر گذار ہونا چاہئے تھا ۔ امریکی فٹبال کی اصطلاح میں انھوں نے ’’صورتحال سے نمٹنے ‘‘ والے کا کردار ادا کیا ۔ انھوں نے ون نیشن ون الیکشن (ONOE) اور دستور کی تمہید سے لفظ ’’سیکولر‘‘ اور سوشلسٹ حذف کرنے کے مطالبہ جیسے معاملات پر آر ایس ایس ؍ بی جے پی کی مدافعت کی ، حد تو یہ ہے کہ جگدیپ دھنکر نے ( کیشونندا بھارتی مقدمہ ) میں فیصلے کیلئے سپریم کورٹ کو بھی شدید تنقید کانشانہ بنایا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں بنیادی ڈھانچہ کے نظریہ کو پیش کیا تھا ۔ انھوں نے پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے عدالتی جائزہ کے نظریئے کو تقویت دی ۔ انھوں نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میںججس کی تقرری کیلئے صدر کو مشورہ دینے کے طریقہ پر سوال (سکینڈ جج کیس ) اُٹھایا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ۔ دھنکڑ نے آرٹیکل 142 کے تحت گورنرس ( اور صدر ) کو تین دن کے اندر بلز پر دستخط یا انکار کرنے کا اختیار دینے پر اعتراض کیا جبکہ آرٹیکل 105 کے متضاد مسٹر جگدیپ دھنکر نے ارکان سے کہاکہ وہ اپنی تقاریر میں دستاویزات اور ڈیٹا کا حوالہ دیں ۔ انھوں نے پرزور انداز میں سناتن دھرم کی بھی مدافعت کی ۔ یہاں تک کہ انھوں نے آر ایس ایس کی زبردست ستائش کی جس سے اُن کے قدامت پسنددائیں بازو نظریات کا اندازہ ہوتا ہے اور اُن کے اقدامات سے چاہے وہ گورنر مغربی بنگال ہو یا پھر آخری عہدہ کے دوران کئے گئے اقدامات دیئے گئے بیانات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بی جے پی اور اُس کی قیادت کو خوش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مسٹر دھنکر مختلف اوقات میں مختلف جماعتوں ے وابستہ رہے جیسے جنتادل ، سماج وادی جنتا پارٹی ( چندرشیکھر کی پارٹی ) ، کانگریس اور بی جے پی وغیرہ ۔آخر میں گورنر مغربی بنگال کی حیثیت سے تقرر نے اُن کے کیرئیر کو عروج بخشا لیکن انھوں نے بحیثیت گورنر اپنے دستوری فرائض کی انجام دہی کی بجائے ریاستی حکومت ( ممتا بنرجی حکومت ) کے اُمور میں بار بار مداخلت بلکہ غیرضروری مداخلت نے اگرچہ اُن کے موافق بی جے پی امیج کو مستحکم کیا لیکن عہدہ گورنر کے وقار کو مجروح کرکے رکھ دیا ۔ حیرت انگیز طورپر اُنھیں نائب صدرجمہوریہ کے عہدہ پر فائز کیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو اُن پر کس قدر اعتماد تھا ۔ راجیہ سبھا کی کارروائی کو جس انداز میں انھوں نے چلایا وہ بھی سب پر عیاں ہیں ۔ جگدیپ دھنکر کو ہی اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر لمحہ بی جے پی کے موقف کی تائید کرنے اور آر ایس ایس کے نظریات کی مدافعت کرنے والے جگدیپ دھنکر نے ایسا کیا کردیا کہ اُنھیں نائب صدرجمہوریہ کے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا ۔ آپ کو بتادیں کہ جسٹس یشونت ورما کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کرنے کا آئیڈیا 15 جولائی کو کانگریس پارلیمانی حکمت ساز گروپ کے اجلاس کے ذریعہ منظرعام پر آیا اور اس نوٹس پر 63 ارکان پارلیمان نے دستخط کئے تھے ۔ اس طرح اپوزیشن نے مسٹر دھنکر کیلئے کوئی موقع ہی نہیں چھوڑا اور نتیجہ میں اُنھیں 21 جولائی کو جسٹس یشونت ورما مواخذہ کی تحریک سے متعلق نوٹس قبول کرنی ہی پڑی ( جبکہ اس قسم کی ایک نوٹس لوک سبھا میں اُسی دن حکمراں جماعت کی جانب سے پیش کی گئی ) اس نوٹس نے مسٹر دھنکر کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ جسٹس شیکھر یادو کے خلاف مواخذہ کی تحریک پر کارروائی کرے ۔ یادو کے خلاف مواخذہ کی نوٹس گزشتہ 7 ماہ سے دھنکڑ نے روکے رکھا ، یہ قیاس آرائیاں بھی گردش کررہی ہیں کہ مذکورہ دونوں تحریکیوں پر فیصلوں سے ہی دھنکر کو رخصت کئے جانے کی راہ ہموار ہوئی لیکن راقم الحروف کے خیال میں دھنکر کے استعفیٰ کی وجہ صرف مذکورہ دونوں تحریکیں نہیں بلکہ یقینا اور بھی کچھ ہے ۔ ویسے بھی زندگی ایک معمہ ، ایک راز ہے اور بعض مرتبہ زندگی بدمزہ اور بدصورت بھی ہوجاتی ہے ۔