زکوٰۃ کا مقصد غریبوں کو خود کفیل بنانا

   

عطیہ صدیقہ
رمضان کا مہینہ آتے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس کے حصول کے سلسلے میں سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیںاور یوں محسوس ہوتا ہے کہ زکوٰۃ اور رمضان کا ایک خاص تعلق ہے۔ اس کا ایک اہم اور اُبھرا ہوا پہلو جوسامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک تو زکوٰۃ کی مدت شمار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اور چوں کہ نیکیوں کا اجر اس ماہ بڑھا دیا جاتا ہے تو ہرشخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے اور اللہ تعالیٰ کے پاس اجر کا مستحق ٹھہرے۔ لیکن زکوۃکی ادائیگی کے لیے رمضان المبارک کے مہینے کا مختص کرنا ضروری نہیں ہے۔ جب بھی ہمارے پاس موجودسرمایہ نصاب کوپہنچ جائے اور اس پر ایک سال مکمل ہوجائے توزکوۃ ادا کردینا چاہیے۔
زکوٰۃ کا مفہوم: زکوٰۃ کے لغوی معنی پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے مال بڑھتا ہے اور دل کا تزکیہ ہوتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال بھی پاک ہوتا ہے، نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، مال کی محبت کم ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ زکوۃ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے غریبوں کی امداد ہوتی ہے۔ اُن میں بھی بھائی چارہ، ایثار ، ہمدردی اور غمگسار کے جذبے کو تقویت ملتی ہے۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان کے فرق کی خلیج کم ہوتی ہے، باہمی تعاون پیدا ہوتا ہے اور معاشی عدل قائم ہوتا ہے۔
زکوٰۃ سے غربت کا خاتمہ : زکوۃ کی ادائیگی معاشرے سے غربت کو ختم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے جب خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کے عہدِ خلافت میں یمن میں حکومتی سطح پر حصول کی گئی زکوٰۃ کا کچھ حصہ بھیجا تو حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کیا کہ تم نے اسے مقامی سطح پر غربا اور مساکین میں کیوں نہیں خرچ کر دیا؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اب یہاں کوئی زکوۃ لینے والا باقی نہیں بچا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں ان کے مصری گورنر نے انہیں خبر دی کہ ان کے علاقے میں تمام افراد مال دار ہوگئے ہیں اور زکوٰۃ و صدقات کی رقم وصول کرنے والا کوئی نہیں رہا ہے۔ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں غربت کو ختم کرنے کیلئے زکوٰۃ ایک اہم ذریعہ ہے۔
زکوٰۃ کا صحیح علم اور اس کی ادائیگی:موجودہ وقت میں سماج اور معاشرے میں زکوٰۃ صحیح طریقے سے ادا نہیں کی جاتی۔ بہت سے لوگ اپنے سرمایہ میں سے بغیر حساب و کتاب کے چند پیسے غریبوں میں تقسیم کرکے سمجھتے ہیں کہ انھوں نے زکوٰۃ کا حق ادا کر دیا ہے۔ علامہ یوسف القرضاویؒ لکھتے ہے: ’’زکوٰۃ اس کا نام نہیں کہ فقیروں کو چند روپیے تھما دیے جائیں، بلکہ زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ لینے والا اسے لے کر خود کفیل بن جائے اور معیاری زندگی بسر کرنے کے لائق ہو جائے۔‘‘ زکوٰۃ کا اہم مقصد مال کی مناسب تقسیم ہے۔ زکوٰۃ کا نظام غریبوں کے لیے کتنی بھاری رقم جمع کر سکتا ہے اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ہمارے ملک میں گھروں میں موجود سونے کے ذخائر پر نظر ڈالنا کافی ہوگا۔ ورلڈ گولڈ کونسل سونے کے متعلق نظر رکھتا ہے۔اس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے گھروں میں چوبیس ہزار ٹن سونا جمع ہے اور صرف سونے سے حاصل ہونے والی ممکنہ زکوٰۃ کا تقریباً ایک تہائی حصہ ملک کے تمام غریبوں کو خط غربت سے اوپر اٹھا سکتا ہے۔
زکوٰۃ کا اجتماعی نظم: زکوۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں بہت سے مسلمان افراط و تفریط کا شکار ہیں۔بہت سے لوگ زکوٰۃ پوری طرح اور باقاعدہ حساب لگا کراس کو ادا نہیں کرتے۔ دوسرے زکوۃ کی ادائیگی کے جو رائج طریقے ہیں، اس میں زکوٰۃ ادا کرنے والا ہر شخص اپنے طریقوں پر کئی حصوں میں تقسیم کرکے خرچ کرتا ہے۔جیسے کچھ کپڑے اور راشن وغیرہ تقسیم کردیتے ہیں۔ تو ایسی منتشر اور منقسم زکوۃ سے غریب افراد کی وقتی طور پرضروریاتِ زندگی تکمیل ہوجاتی ہے، لیکن غربت کا خاتمہ نہیں ہوتا ۔اس لیے زکوٰۃ کی ادائیگی کا مطلوب طریقہ یہ ہے کہ اس کا اجتماعی نظم قائم کیا جائے، جس سے غربت کا خاتمہ ہو۔ اسلام میں زکوٰۃ باقاعدہ ایک انسٹیٹیوشن ہے۔ زکوۃ کو جمع کرنا اور اس کی صحیح تقسیم کرنا اور غربت کے خاتمے اور طویل المیعاد معاشی ترقی میں زکوٰۃ ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ زکوۃ کا اجتماعی نظم قائم کرنا امت کے لیے ضروری ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے لکھا ہے کہ’’انفرادی طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی اسلام کی تعلیمات اور زکوٰۃ کی روح کے خلاف ہے۔ اسلامی حکومت کی غیر موجودگی میں مسلمان ویسے ہی اجتماعی نظامِ زکوۃ کو ملت کی اجتماعی کوششوں سے قائم کرسکتے ہیں جیسے نمازِ جمعہ اور نماز کا نظام قائم کرتے ہیں۔
خواتین اور زکوٰۃ خواتین اپنے زیورات کی مالک ہوتی ہیں۔اگر وہ زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان کا پورا حساب لگا کر زکوٰۃ نکالنا خواتین کیلئے ضروری ہے۔ دوسری ا ہم بات یہ ہے کہ خواتین کو صاحبِ نصاب بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ صاحب نصاب بننے میں جو چیزیں مانع ہیں، مثلاً فضول خرچی، شادی بیاہ پر بے جا اسراف،غیر ضروری اخراجات وغیرہ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔بہت سی خواتین غیر ضروری چیزوں میں ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کر دیتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں بن پاتا۔خواتین کو کوشش کرنا چاہیے کہ اپنا کچھ اثاثہ بنائیں، تاکہ وہ صاحبِ نصاب بن سکیں اور اور زکوٰۃ ادا کر سکیں۔
ایک اہم مسئلہ زیورات کی زکوٰۃ نکالنے کا ہے۔بعض خواتین ،جو ملازمت کرتی ہیں، ان کے لیے زکوٰۃ نکالنا آسان ہوتا ہے۔ کچھ خواتین کی زکوٰۃ ان کے شوہر ادا کر دیتے ہیں اور کچھ خواتین ایسی بھی ہیں، جن کے پاس زیورات تو ہیں لیکن زکوۃ کی ادائیگی کے لیے پیسہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں فقہاء نے کہا ہے کہ اسی سونے میں سے کچھ کو فروخت کر دیا جائے اور زکوٰۃ کی ادائیگی اُن پیسوں سے کی جائے۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں ہم کچھ منصوبہ بندی کریں اور سال کے شروع ہونے سے پہلے کچھ پلاننگ کرلیں اور تو ان شاء اللہ بہتر انداز میں زکوٰۃ کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم زکوٰۃ باکس بنائیں اور روزانہ گھر خرچ سے کچھ رقم اس ڈبے میں ڈالتے جائیں تو اس طرح سال کے اختتام تک ایک خطیر رقم ہمارے پاس جمع ہوجائیگی اور ہم آسانی سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں خرچ کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ا ہم بات ، جس پر تمام خواتین کو غور و فکر کرنا ہوگا ، وہ یہ کہ ہم اپنی زکوٰۃ کو منتشر اور منقسم انداز میں نہ دیں بلکہ ہم کوشش کریں کہ ہمارے اطراف میں جو بھی اجتماعی نظامِ زکوٰۃ کے ادارے یا تنظیمیں موجود ہوں، ہم ان کا حصہ بننے کی کوشش کریں۔
زکوٰۃ سنٹر : جماعت ِ اسلامی ہند کی جانب سے ایک اجتماعی زکوٰۃ کا نظام ’زکوٰۃ سنٹر‘ کے نام سے قائم کیا گیا اور جماعت ِاسلامی ہند کے بیت المال میں بھی زکوۃ کا ایک نظم قائم ہے۔ ہم یہ کوشش کریں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ہم اپنی زکوٰۃ کو اجتماعی اداروں میں جمع کرائیں تاکہ زکوٰۃ کے اصل مقصد غربت کا خاتمہ ہوسکے ۔اس طرف ہم تمام لوگوں کو توجہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو اسلام کے اس اہم رکن کی صحیح اسپرٹ کو سمجھنے والا اور عمل کرنے والا بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
( مضمون نگار، شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند کی سکریٹری اور ہادیۃ ای میگزین کی چیف ایڈیٹر ہیں)