سابق امیر جماعت اسلامی ملک معتصم خاں کی خاموشی ، چیرمین وقف بورڈ کے عہدہ پر نظر !

   

صدر مقامی جماعت کی مہم ، جماعت اسلامی میں بھی چہ میگوئیاں ، شہریوں کے استفسارات
حیدرآباد۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جاری جدوجہد کے دوران سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی جناب ملک معتصم خان نے اپنے قریبی رفقاء سے بات چیت کے دوران کہا تھا حکومت تلنگانہ کے سی اے اے اور این آر سی پر اختیار کردہ موقف کے سبب ان کا دم گھٹ رہا ہے اور وہ تلنگانہ ریاستی وقف بورڈ کے رکن کی حیثیت سے گھٹن محسوس کر رہے ہیں لیکن اب جبکہ شہر حیدرآباد میں سیکریٹریٹ کے انہدام کے دوران دو مساجد شہید کردی گئی ہیں اس کے باوجود ان کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران وہ زیادہ تر دہلی میں مصروف تھے اسی لئے وہ تلنگانہ میں عملی میدان میں نظر نہیں آئے لیکن اب جبکہ وہ شہر میں موجود ہیں تو انہیں دونوں مساجد کی شہادت کے علاوہ مسجد یکخانہ کے اسی جگہ پر تعمیر نو کے سلسلہ میں عملی میدان میں آنے کی ضرورت ہے ۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدر مجلس اسد اویسی کی جانب سے حکومت تلنگانہ کے مشیر اے کے خان یا جناب ملک معتصم خان کو تلنگانہ ریاستی وقف بورڈ کا صدر بنائے جانے کی ٹوئیٹر کے ذریعہ تحریک شروع کئے جانے کے بعد جماعت اسلامی کے سابق امیر حلقہ مکمل خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔ عوام ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے کئی سرگرم ذمہ داروں میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ جناب ملک معتصم خان کی جانب سے مساجد کی شہادت پر آواز اٹھانے یا اب گھٹن محسوس نہ کئے جانے کی وجہ صدرنشین بننے کا خواب ہے اور اسی لئے وہ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔شہریوں کی جانب سے استفسار کیا جا رہاہے کہ شہر میں مساجد کی شہادت پر اختیار کردہ موقف اور عہدہ سے مستعفی نہ ہونے کی وجہ صدرنشین کے عہدہ کے حصول کی کوشش تو نہیں ہے! کیونکہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مہم کے دوران کئی افراد سے بات چیت کے دوران جناب ملک معتصم خان نے سنجیدگی کے ساتھ یہ کہا تھا کہ وہ بہ حیثیت رکن تلنگانہ وقف بورڈ میں گھٹن محسوس کر رہے ہیںلیکن اب صدر مجلس کی جانب سے انہیں صدرنشین بورڈ کے عہدہ پر نامزد کرنے کی مہم شروع کئے جانے کے بعد وہ خاموش ہیں ۔ ان کی جانب سے اس مسئلہ پر کسی بھی قسم کے اظہار خیال سے گریز کیا جا رہاہے اور حکومت کی پالیسی اور مساجد کی شہادت پر اپنی ذاتی رائے کے بجائے امیر حلقہ اور جماعت اسلامی کے موقف پر انحصار کرتے ہوئے بورڈ میں برقرار رہنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔