سابق وزیراعظم دائود اوگلو کی صدرترکی اردگان پر کڑی تنقید

   

انقرہ : ترک صدر رجب طیب اردگان کے حکم پر سابق وزیر اعظم دائود اوگلو کی نجی ملکیتی ’’استنبول یونیورسٹی‘‘ بند کیے جانے پر دائود اوگلو نے صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق استنبول میں ایک تقریب سے خطاب میں دائود اوگلو نے کہا کہ صدر طیب اردگان کے دفتر سے نصف شب کو استنبول کی ایک بہترین درس گاہ کو بند کرنے کا حکم صادر ہوا۔ یونیورسٹی بند کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تعلیم کو نظرانداز کر دیا ہے۔انھوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے حکومتی عہدیداروں اور طیب اردگان کو بے ضمیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان مردہ ضمیر حکمرانوں نے استنبول یونیورسٹی کو بند کرنے کا حکم کیوں دیا؟ اس لیے کہ یہ طیب اردگان کاحکم تھا ‘‘۔ اس گھٹیا فیصلے سے پوری قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ تعلیم کا حصول حکومت کی ترجیحات میں نہیں بلکہ تحصیل علم کے لیے ہونے والی کوششوں کو دبایا جا رہا ہے۔ خاص طور پر دینی جماعتوں کو دبائو میں لایا جا رہا ہے تاکہ وہ جھک جائیں یا اپنا کام چھوڑ دیں۔انہوں نے ترکی میں اظہار رائے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت حقیقی معنوں میں جمہوریت نہیں، بلکہ آمریت ہے۔ اگر آپ حکومت کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں یا اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں تو آپ کو سخت سزا ہو سکتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا کہ سیاسی اختلافات کے لیے کوئی اخلاقی اصول نہیں ہوتے؟۔خیال رہے کہ گذشتہ منگل کے روز ترک وزارت تعلیم نے استنبول کی شھیر یونیورسٹی کا اجازت نامہ معطل کردیا تھا۔ یہ درس گاہ سابق وزیراعظم احمد دائود اوگلو نے سنہ 2008ء میں قائم کی تھی۔ دائود اوگلو کا شمار طیب اردگان کے سابق ساتھیوں میں ہوتا ہے مگر اردگان کی آمرانہ روش سے تنگ آ کر وہ ان سے الگ ہوگئے تھے۔