سابق چیف جسٹس چندراچوڑ کاحقیقی چہرہ بے نقاب

   

ہرش مندر
آج کل ملک بھر میں جہاں چیف جسٹس بی آر گوائی پر جوتا پھینکے جانے کے واقعہ کو لیکر بحث چھڑ گئی ہے وہیں سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندراچوڑ کا ایک بیان بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اُن کے اُس بیان کو لیکر جہاں سنگھ پریوار اور اُس کے نظریات سے متاثر عناصر خوشی کا اظہار کررہے ہیں وہیں محب وطن ہندوستانی شہریوں کی جانب سے اِس بیان پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈی وائی چندرا چوڑ نے ایسا کیا کہدیا کہ اُنھیں اب سنگھ پریوار اور ہندوتوا کا وفادار قرار دیا جارہا ہے ۔
آپ کو بتادیں کہ چندراچوڑ نے یہ دلیل دی کہ بابری مسجد کی تعمیر ایک ناپاک حرکت تھی ۔ اُن کی یہ عجیب و غریب دلیل اور بیان آر ایس ایس و بی جے پی کے ہندوتوا کے تئیں اُن کی اٹوٹ وفاداری کا عین ثبوت ہے ۔ ڈائی وائی چندرا چوڑ سپریم کورٹ کی اُس بنچ میں شامل تھے جس نے بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کا فیصلہ سنایا اور حال ہی میں اُنھوں نے یہ دعویٰ کیاکہ اس مقدمہ کا فیصلہ تحریر کرنے میں اُنھیں ایشور کی رہنمائی حاصل رہی اور وہ ایک سچے ( کٹر ہندو ) ہیں ۔ انھوں نے پرزور انداز میں یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ ان کے فیصلہ لکھنے میں ایک ہندو ایشور نے اُن کی رہنمائی کی ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بابری مسجد کا تنازعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا مذہبی تنازع تھا جس کا فیصلہ آستھا ( عقیدہ) کی بنیاد پر دیا گیا ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آستھا کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا جاسکتا ہے؟ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2019 ء میں 5 ججس پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے متفقہ طورپر ہندو فریق کے حق میں فیصلہ صادر کیا تھا اور اس فیصلہ کے ذریعہ قرون وسطیٰ کے دور سے جس مقام پر بابری مسجد کھڑی تھی اس پوری اراضی کو رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو فریقوں کے حوالے کردیا گیا ۔
ہندوستان 6 ڈسمبر 1992 ء کی اس تاریخ کو فراموش نہیں کرسکتا جب موسم سرما میں ایک پرتشدد ہجوم نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بارے میں کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد آزاد ہندوستان کی تاریخ کا وہ تاریک دن تھا۔ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد راقم الحروف نے اپنے تبصرہ میں کہا تھا کہ ایودھیا میں متنازع اراضی پر دیئے گئے فیصلہ کے بعد ہندوستان میں کچھ تبدیل ہوگیا ہے ، کچھ بدل سا گیا ہے ، کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور ڈی وائی چندرا چوڑ کے حالیہ بیان پر مجھے اپنا مذکورہ تبصرہ پریشان کرتا رہا ۔ چندرا چوڑ نے یہ اعلان کیا کہ 1528-29 میں مغل بادشاہ اور مغلیہ سلطنت کے بانی بابر کے ایک فوجی کمانڈر کی طرف سے مسجد کی تعمیر ،مسجد کی تعمیر ہی ناپاک حرکت تھی نہ کہ ڈسمبر 1992 ء میں جمہوری و سیکولر ہندوستان میں ایک جنونی ہجوم کے ذریعہ قانون ، سپریم کورٹ کی ہدایات اور آئنی اخلاقیات ودستوری اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُسے منہدم کرنا ، اس کا مطلب یہ تشدد کیلئے تیار ہجوم کے مسجد کو مسمار کرنے کا اخلاقی جواز ہے ۔
واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ ڈی وائی چندرا چوڑ حالیہ عرصہ تک بھی چیف جسٹس آف انڈیا کے باوقار عہدہ پر فائز رہے اور 2019 ء میں بابری مسجد اور اُس کے تحت جو اراضی تھی اسے ہندو فریقوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ انھوں نے دیگر دو ججس کے ساتھ ملکر لکھا تھا ۔ اگر ہم چندراچوڑ کے تبصرہ پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا یہ مشاہدہ ؍ تبصرہ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی اور اُس کے نظریہ ہندوتوا کے بنیادی نظریہ سے اُن کی کتنی اٹوٹ وفاداری ہے ، کتنی اٹوٹ وابستگی ہے ۔ اسے ظاہر کرتا ہے۔
آپ اور ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ 22 جنوری 2024ء کو وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں رام مندر کی پران پرتشٹھا کیلئے ایک بہت بڑی عوامی تقریب اور مذہبی رسومات کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔ یہ وہی سرزمین تھی جہاں بابری مسجد شہید کی گئی تھی اور یہ ڈی وائی چندر ا چوڑ کے لکھے گئے فیصلہ اور سپریم کورٹ کے منظورہ اور صادر کردہ فیصلہ کے بعد ہی ممکن ہوسکا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بابری مسجد پر تعمیر کردہ رام مندر کی پران پراتشٹھا تقریب کو ہندوستان کی حقیقی آزادی سے تعبیر کیا ۔ اُن کے مطابق رام مندر کی تعمیر نے صدیوں کے غیرملکی حملہ کے اثر کو ختم کردیا ہے ۔ اس تقریب کے بعد مرکزی کابینہ نے مودی کو موہن بھاگوت کے الفاظ میں ہی مبارکباد دی ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ 1947 ء میں صرف ہندوستان کا جسم آزاد ہوا تھا اور ہندوستان کی روح اُس وقت آزاد ہوئی جب بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی پران پرتشٹھا تقریب منعقد کی گئی ۔
سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کی جانب سے بابری مسجد کی تعمیر کو ایک ناپاک عمل قرار دینا اُن کی ذہنیت اُن کی سوچ و فکر کو ظاہر کرتا ہے۔ ویسے بھی اس معاملہ میں وزیراعظم کہاں پیچھے رہتے انھوں نے اکثر اس بات کو دہرایا کہ ہندوستانیوں نے دوسو برسوں تک صرف برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کی غلامی کو برداشت نہیں کیا بلکہ مسلم غیرملکی حملہ آوروں کی غلامی بھی برداشت کی اور یہ حملہ آور کہیں زیادہ سفاک تھے ۔ یہ ایسے حملہ آور تھے جنھوں نے ہزار سال تک مطلق العنان حکومت کی ۔ وزیراعظم نے اُنھیں انتہائی سفاک وحشی اور جنونی تک قرار دیا اور اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ ان حملہ آوروں نے ہندو مندروں کو منہدم کیا ۔ ہندو مذہب کی توہین کی ، ہندو خواتین کی عصمت ریزی کی اور ایک کثیرتعداد میں ہندوؤں کو مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ۔
دوسری طرف طرفہ تماشہ یہ کہ مودی حکومت میں اب اسکولی نصاب میں بڑے پیمانہ پر تبدیلیاں کی گئیں ہیں اور کی جارہی ہے ۔ اس معاملہ میں اکبراعظم کو بھی نہیں بخشا گیا ۔ مثال کے طورپر تاریخ کی نظرثانی کتب میں مودی حکومت کی ہدایت پر اکبراعظم کو مذہبی شدت پسند کی حیثیت سے متعارف کروایا جارہا ہے حالانکہ اکبر نے اپنی سلطنت میں مذہبی رواداری کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔ بہرحال ایک بات ضرور ہے کہ مودی حکومت میں اس جھوٹ کو بڑے پیمانہ پر پھیلایا گیا ہے اور نتیجہ میں کئی تاریخی مساجد پر مندر ہونے کے دعوے کئے گئے اور اب عدالتوں میں مقدمات زیردوران ہیں ، اس سے یقینی طورپر نئی نسل میں فرقہ وارانہ نفرت ، عداوت کا جذبہ اور ناراضگی بڑھے گی اور ایسی حرکتیں خون ریزی کو ہوا دینے کا باعث بنیں گی ۔
جہاں تک بابری مسجد کا سوال ہے آثار قدیمہ کی تحقیق اس امر کی بھی تصدیق نہیں کرتی کہ مندر کو 4 صدی قبل ہی منہدم کیا گیا تھا ۔ اگر ماضی میں کی گئی غلطیوں کو بالفرض بنیاد بناکر مساجد کو اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو پھر خود کو اعلیٰ ذات کہنے والوں نے پسماندہ و کمزور طبقات میں پیدا ہونے والوں کو کم از کم دو ہزار برسوں سے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا ہے اور ان کمزوروں پر ایسے مظالم ڈھائے گئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے زبردست مشقت کروائی جاتی ہے ۔ بندھوا مزدوروں کی طرح اُن کا استعمال کیاجاتا رہا ہے ۔ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، اُنھیں حصول علم اور عبادت کے حق سے انکار کیا گیا ۔ ہر روز اُن کی بے عزتی کو اُن ذاتوں نے اپنا مشغلہ بنایا جبکہ مسلم حکمرانوں نے ایسا ظالمانہ اور اونچ نیچ یاامتیازی سلوک روا نہیں رکھا ۔ ایسے میں اگر تاریخی جرائم کا انتقام قانون اور عوامی اخلاقیات میں قابل قبول ہے تو ہمیں اعلیٰ ذاتوں سے اس کی شروعات کیوں نہیں کرنی چاہئے ۔ آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں چندراچوڑ ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری دستور کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہے ۔