پی چدمبرم
ملک نے دو سال قبل بی جے پی کو واضح اکثریت سے کامیابی دلاکر اقتدار حوالے کیا تھا۔ پچھلے انتخابات میں صرف بی جے پی نے 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ بحیثیت مجموعی این ڈی اے کو 353 نشستیں ملی تھیں، جیسا کہ ہم اب تیسرے سال میں داخل ہورہے ہیں۔ ایسے میں یہ دریافت کرنا مناسب ہوگا کہ پچھلے دو برسوں سے زائد عرصہ میں ہمیں کس طرح کی حکمرانی دیکھنے کو ملی ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے اور ہماری ملک کی اس آبادی میں سے تقریباً 26 کروڑ خاندانوں کو ہر روز اپنی پلیٹس میں کھانا حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ صرف انہیں کھانے کے بارے میں ہی فکرمند رہنا نہیں پڑتا بلکہ کئی اور ضروریات زندگی ہیں جس کی وہ تکمیل چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ہندوستانیوں کو سکیورٹی کی ضرورت ہے، روزگار یا ملازمتیں درکار ہیں، زندہ رہنے کیلئے آمدنی چاہئے، آسرے کی ضرورت ہے، مکانات درکار ہیں۔ اپنے بچوں کیلئے نگہداشت صحت، تعلیم اور دیگر چیزیں بھی چاہئے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہندوستانیوں اور ہمارے بچوں کو مذکورہ تمام سہولتیں یا چیزیں مل پارہی ہیں اور ہماری ضروریات کی تکمیل ہورہی ہیں یا نہیں؟
ملک ناقص غذا کا شکار
جہاں تک ہمارے ملک کا سوال ہے، یہ اناج کی پیداوار کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے۔ خاص طور پر یہاں دالیں، باجرہ، دودھ ، سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ ساتھ گوشت اور مچھلی کی بہت زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ اس پیداوار کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ہر ہندوستانی کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس کی اپنی پلیٹ میں کافی غذا یا کھانے ملنے چاہئے۔ اگر ہم ترقی کررہے ہیں تو ایسے میں ہر سال حالات بہتری کی جانب گامزن ہونا چاہئے۔ اگر بچوں کو مناسب مقدار میں غذائیت سے بھرپور غذا نہیں ملتی ہے تو وہ خون کی کمی کا شکار ہوجائیں گے، ان کا جسمانی نمو رک جائے گا وہ ٹھٹھر جائیں گے اور کم وزن کی بیماری میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ہماری نظروں کے سامنے جو آخری ڈیٹا آیا تھا وہ NFHS-4 (2015-16ء) ہے۔ NFHS-4 کے مطابق ہمارے ملک میں 58.6% بچے ایسے ہیں جو خون کی کمی کا شکار ہیں، 21 فیصد ایسے ہیں جن کا وزن بہت کم ہے۔ 38.4% بچے ایسے ہیں جن کا جسمانی نمو رک سا گیا ہے یعنی وہ ٹھٹھر گئے ہیں۔ 21% ایسے ہیں جن کا وزن بہت کم ہے۔ بہرحال 10 سال قبل بھی NFHS-3 تیار کیا گیا تھا اور دس سال بعد اس میں کچھ بہتری نظر آئی۔ اسی طرح NFHS-5 سال 2019-20ء میں شروع کیا گیا لیکن کورونا وائرس کی عالمی وباء کے نتیجہ میں وہ مکمل نہیں ہوسکا، تاہم 22 ریاستوں سے جو ڈیٹا حاصل ہوا ہے، اور جسے جاری کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 22 ریاستوں میں سے 18 ریاستیں ایسی ہیں، جہاں کے بچوں میں خون کی کمی کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح جسمانی نمو رک جانے کا رجحان 13 ریاستوں میں بڑھ گیا ہے اور 12 ریاستوں کے بچوں میں وزن کی کمی دیکھی گئی ۔ اس ڈیٹا کا اختتام بہت تکلیف دہ رہا۔ ہمارے ملک میں ویسے تو اناج اور دیگر غذائی اشیاء کی کوئی کمی نہیں، اناج کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے بچوں کو مناسب طور پر کافی مقدار میں غذا نہیں ملتی اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جو بچے غریب طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں معیاری غذا بھی نہیں مل پاتی۔ آپ کو بتا دوں کہ جب سے قومی جمہوری اتحاد یا این ڈی اے II کی حکومت کا آغاز ہوا، ہمارے ملک کی قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو اور فی کس آمدنی میں زبردست گراوٹ آئی۔ حد تو یہ ہے کہ محنت کشوں کی شراکت کی شرح بھی گر گئی، اسی طرح ملک میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب کسی نوجوان کو بیروزگاری کی فکر نہیں تھی، لیکن اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ WPI افراط زر اور غذائی افراط زر بھی مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ صنفی عدم مساوات بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
نااہلی کے باعث حالات ابتر
کورونا وائرس کی عالمی وباء نے صورتحال کو انتہائی ابتر بنا دیا ہے۔ آپ کو یاد دلا دوں کہ اس وباء نے ہندوستان کو اقتصادی طور پر اس قدر متاثر کیا ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ کووڈ۔ 19 کا پہلا کیس ہمارے ملک میں 30 جنوری 2020ء کو منظر عام پر آیا جبکہ معاشی گراوٹ اور معاشی انحطاط دراصل انسان کا کیا دھرا تھا۔ اس کے برعکس عالمی وباء ایک آفت سماوی ہے اور اس آفت سماوی کو حضرت انسان نے مزید ابتر بنادیا۔ بہرحال ان دونوں واقعات میں اقتدار پر فائز مرد و خواتین ذمہ دار ہیں۔ وہ لوگ نہیں جنہوں نے اپنا ووٹ دے کر انہیں اقتدار پر فائز کیا ہے۔ جیسے ہی ہم نے 2021-22ء کا آغاز کیا، ایسا لگا ہے کہ معیشت ایک اور تباہ کن سال سے دوچار ہوجائے گی۔ لوگ ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہوں گے اور روزگار و ملازمتوں سے محرومی کے معاملے میں مردوں کی بہ نسبت خواتین زیادہ ہوں گی جبکہ غیرمنظم شعبہ یا یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے ورکر یا محنت کش منظم یا باقاعدہ شعبوں سے وابستہ محنت کشوں یا ورکروں سے کہیں زیادہ متاثر ہوں گے۔ تنخواہوں اور آمدنی پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ ہمیں ایسا بھی دکھائی دیتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں MS,ME’s بند ہوجائیں گی یا پھر ان کی تعداد میں بہت زیادہ کمی آئے گی۔ نقل مکانی میں پھر اضافہ ہوگا۔ نتیجہ میں بے شمار لوگ غربت اور قرضوں کے دلدل میں پھنس جائیں گے، ہر کوئی جو سال 2019-20ء یا یہاں تک کہ 2020-21ء میں جس پوزیشن میں تھا، اس سے ابتر موقف میں آجائے گا۔
خدانخواستہ پھر لاک ڈاؤن
موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ خدانخواستہ لاک ڈاؤن ناگزیر ہوجائے گا۔ مجھے تو حیرت ہے کہ ہم نے کووڈ۔19 کے خلاف جنگ کو 2020ء میں ہی جیت لی ہے پھر ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے (کووڈ۔19 کے خلاف جنگ جیتنے کا دعویٰ ہمارے وزیراعظم نے 17 اپریل کو کیا تھا) ان کے دعوے کے بعد حالات اس قدر ابتر ہوجاتے ہیں تو پھر اس پر حیرت کے سواء کیا ہوگا۔ موجودہ حالات سے تو یہی لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن ناگزیر ہوگیا ہے لیکن گزشتہ سال کی بہ نسبت اس مرتبہ مرکزی حکومت نے یہ کام اپنی بجائے ریاستی چیف منسٹروں کو تفویض کردیا ہے جن کے پاس مرحلہ وار انداز میں کاروبار زندگی بند کرنے کے علاوہ کوئی امکان باقی نہیں رہا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ تمام سرگرمیاں بالخصوص تجارتی سرگرمیاں بند کردی جائیں گی۔ اسی دوران لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوں گے اور ٹیکوں ، آکسیجن سلنڈرس، وینٹیلیٹرس، آئی سی یو بیڈس اور اینٹی وائرل میڈیسن یا ادویات تک عدم رسائی کے نتیجہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ موت کے منہ میں پہنچ جائیں گے۔
تاحال اقتصادی بحران اور وباء سے حکومت نے عجیب انداز اور غیرسنجیدگی سے نمٹا ہے اور جس نے بھی حکومت کی بے حسی اور مجرمانہ تساہل پر تنقید کی، تو اس کے خلاف کرایہ پر حاصل کردہ سوشل میڈیا کے غنڈوں کی فوج کو استعمال کیا گیا۔ کیا آپ اس طرح کی کرایہ کی فوج کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟۔ دوسری طرف ہمارے وزیراعظم انتخابی ریالیوں سے خطاب کررہے ہیں اور حد تو یہ ہوگئی ہے کہ وہ متاثرہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے فون کالس پر بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح مرکزی وزیر صحت بار بار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں ٹیکوں ، آکسیجن سلنڈرس، ریمڈیسیور انجیکشنس یا آئی سی یو بیڈس کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ تو اس طرح کے دعوے کرتے ہوئے عوام کی نظروں سے اوجھل ہورہے ہیں لیکن حقیقت میں عوام کو مذکورہ تمام سہولتیں دکھائی نہیں دیتیں۔ ہمارے مرکزی وزراء کا رویہ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ لوگ ایک طرح سے تنقید کرنے والوں اور کورونا سے متاثر مرد و خواتین کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک مرکزی وزیر ایسے بھی ہیں جو ملک میں بیرونی فارماسیوٹیکل کمپنیز کے پراڈکٹس استعمال کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور دل آزار ریمارکس کررہے ہیں۔ ایک وزیر فینانس سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی جانب سے ٹیکوں کی تیاری کی گنجائش میں اضافہ کیلئے 3 ہزار کروڑ روپئے فراہم کرنے کی درخواست پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ ایس آئی آئی اور بھارت بائیوٹیک اپنے تیار کردہ ٹیکوں کی گنجائش میں اضافہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہمارے ملک میں ویکسین تیار کرنے کی سب سے بڑی سہولت ہے ، لیکن اس کے باوجود ہم اس کا فائدہ نہیں اُٹھا پارہے ہیں۔ دوسری جانب ریاستی حکومتیں ، متاثرین اور مہلوکین سے متعلق اعداد و شمار غلط طور پر پیش کررہی ہیں حالانکہ ہندوستان کے مختلف مقامات پر دواخانوں ، مردہ خانوں اور شمشان گھاٹوں (مثال کے طور پر گجرات اور دہلی) کے باہر نعشوں سے بھری ایمبولنس ، ویانس اور نعشوں کے ڈھیر دیکھے جارہے ہیں۔بہرحال ہم نے دو سال قبل بی جے پی کو زبردست اکثریت سے کامیابی دلائی تھی ، لیکن اس کے جواب میں ہمیں محرومی ، قرض ، بیماری اور موت ملی ہے۔ کیا بی جے پی کو اقتدار پر فائز کرنے والے لوگ اسی کے مستحق تھے؟ میرا جواب ’’نا‘‘میں ہوگا۔