رشیدالدین
’’ نام رکھائی‘‘ اس بارے میں ہر کوئی واقف ہے کیونکہ ہر خاندان میں نئے مہمان کے پیدا ہوتے ہی نام رکھائی اور پھر لڈو تقسیم کئے جاتے ہیں۔ بچوں کی نام رکھائی کے بعد عمارتوں ، پراجکٹس اور شہروں کی نام رکھائی بھی ہونے لگی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ نام رکھائی کب ہوتی ہے، لیکن اب باسی کڑی میں ابال دیکھا جارہا ہے۔ قدیم شہروں کے نام اب تبدیل ہونے لگے ہیں۔ نریندر مودی حکومت نے تو حد کردی اور انگریزوں کی غلامی سے نجات کے 75 سال بعد ملک کی نام رکھائی کا خیال آیا۔ نام رکھائی کیلئے عام طور پر مشورہ ان لوگوں سے کیا جاتا ہے جو اپنے بچوں یا گرانڈ چلڈرنس کے نام رکھے ہوں۔ ملک کا نام رکھنے والوں کی زندگی میں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہے کیونکہ گھر اور خاندان کا کوئی تصور بھی نہیں ۔ شادی تو کی لیکن جن کے ساتھ 7 جنم نبھانے کیلئے اگنی کے پھیرے لئے گئے ، انہیں گھر کی مہا رانی بناکر رکھنے کے بجائے در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیا ۔ جس نے اپنی شریک حیات کو محبت سے کوئی نام نہیں دیا ، آج وہ ملک کانام بدلنے چلے ہیں۔ یہاں معاملہ نئے نام رکھنے کا نہیں بلکہ ملک کو صرف ایک ہی نام سے پکارنے کو لازمی قرار دینے کا ہے ۔ ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والے ملک کو بھارت ، انڈیا اور ہندوستان کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ ہندی بھارت ، انگریزی میں انڈیا اور اردو میں ہندوستان۔ یہ تینوں نام بھی یکساں طور پر مقبول ہوئے ۔ فارسی میں ہند اور عربی میں الہند کہا جاتا ہے ۔ حب الوطنی کے اظہار کے لئے ’’جئے ہند‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ انڈیا ، بھارت ، ہندوستان اور ہند یہ تمام ایک ہی ہیں اور ہر شہری کو کسی بھی نام کے استعمال کا اختیار حاصل ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ نام رکھائی کسی تجربہ کار شخص سے کرائی جاتی ہے لیکن یہاں تو ایک ناتجربہ کار شخص نے نام رکھائی کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ نام بچوں کے ہوں یا شہروں یا پھر ملک، تجربہ اہمیت کا حامل ہے۔ ناتجربہ کار افراد کے فیصلے سماج اور ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا نام بدلنے کی آخر ضرورت کیا ہے ۔ نریندر مودی 9 سال سے اقتدار میں ہیں لیکن اقتدار کے آخری سال وہ بھی الیکشن سے عین قبل نام رکھائی کا خیال کیوں آیا ۔ مودی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار چاہتے ہیں کہ ملک کو صرف بھارت کے نام سے پکارا جائے اور لفظ انڈیا استعمال ختم ہو۔ مودی حکومت کے اس فیصلہ سے محمد بن تغلق کی یاد آگئی جس نے 1328 ء میں پائے تخت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کردیا تھا لیکن کچھ دنوں میں دوبارہ دہلی واپس ہونا پڑا۔ اسی دہلی میں بیٹھے موجودہ وقت کے محمد بن تغلق بے تکے فیصلے کر رہے ہیں۔ محمد بن تغلق نے چمڑے کا سکہ رائج کیا تھا اور پتہ نہیں کب نریندر مودی بھی اسی طرح کا قدم اٹھائیں گے۔ تغلق نے مغلوں کے حملہ سے خوف کے نتیجہ میں پایہ تخت تبدیل کیا اور نریندر مودی اپوزیشن سے خوفزدہ ہوکر ملک کو بھارتی نام دینا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے نام کا مخفف چونکہ INDIA ہوتا ہے لہذا مودی کو لفظ انڈیا سے ہی نفرت ہوگئی۔ کیا ہندوستان پر کسی ایک سیاسی پارٹی اور اس کے حامیوں کی اجارہ داری ہے؟ جب سے اپوزیشن اتحاد نے اپنا نام انڈیا رکھا، مودی اینڈ کمپنی کی نیند حرام ہوگئی اور بھارت نام کو لازمی کرنے دستور میں ترمیم کی تیاری ہے۔ تلگو کے نامور کوی ویمنا جن کا کلام اسکول کے نصاب میں شامل ہے، ان کی ایک مشہور نظم میں کہا گیا کہ دیش کا مطلب مٹی نہیں بلکہ دیش کا مطلب انسان ہوتے ہیں۔ بی جے پی اور مودی کو کوئی سمجھائے کہ ملک کا نام انڈیا ہو یا بھارت کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نام کی تبدیلی سے ملک اور عوام کے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ کیا بھارت کہنے سے اچھے دن آجائیں گے ؟ کیا مہنگائی ختم ہوگی؟ کیا بیروزگاری ، غربت اور بیماری کا خاتمہ ہوگا؟ کیا بھارت نام کے ساتھ ہی فرقہ پرستی ، نفرت اور تعصب کا خاتمہ ہوجائے گا؟ اقلیتوں ، دلتوں اور قبائل پر مظالم بند ہوجائیں گے؟ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو ہم سب سے پہلے بھارت نام نویسی کی تائید کریں گے۔ نام میں کیا رکھا ہے ، اہمیت کام کی ہوتی ہے ۔ اچھے کام سے نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا نام ہوتا ہے اور کام خراب ہو تو بدنامی ملک کی ہوتی ہے۔ کیا نام بدلنے سے حکومت ، برسر اقتدار پارٹی اور نفرت کے سوداگروں کے کالے کرتوت مٹ جائیں گے؟ بدلاؤ نام کا نہیں بلکہ کام کا ہو۔ ملک کا نام بدلنے سے زیادہ ضروری عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہے۔ لوگ آج بھی بھوک سے مر رہے ہیں، عوام کا پیٹ بھرنے والے کسان خودکشی پر مجبور ہیں۔ بیروزگاری کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ روزگار نہ ملنے سے نوجوان غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لاکھوں خاندانوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ۔ علاج کی سہولتیں دستیاب نہیں، ہزاروں گاؤں آج بھی بجلی ، پانی اور سڑک جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ نام کی تبدیلی سے زیادہ عام آدمی کی زندگی میں بدلاؤ اور سدھار پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ملک کے نام کی تبدیلی آسان نہیں۔ جہاں جہاں انڈیا ہے وہاں بھارت شامل کرنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے ۔ قوم کو حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے غیر ضروری مسائل میں الجھاکر رکھنا نریندر مودی کی عادت ہے۔ اگر عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوجائے تو پھر نام کی تبدیلی کا کیا ہوگا؟ ملک کے نام کو انتخابات کا کھیل نہ بنایا جائے تو بہتر رہے گا۔ آخر کس کس کے نام تبدیل کریں گے۔ انڈیا گیٹ ، ٹیم انڈیا ، ایر انڈیا ، انڈین آرمی ، انڈین نیوی ، انڈین ایرفورس، انڈین ریلویز ، انڈین آئیل ، اسرو ، سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن ، سی بی آئی ، آر بی آئی ، ایس بی آئی ، آئی اے ایس ، آئی پی ایس ، آئی آر ایس ، ڈیجیٹل انڈیا ، اسکل انڈیا ، میک ان انڈیا ، کھیلو انڈیا ، الغرض کیا کیا تبدیل ہوگا۔ تبدیلی کے فیصلہ پر کسی نے کہا تمام چیزوں کے نام حتیٰ کہ صدر اور نائب صدر جمہوریہ کا نام بدلنے کے بجائے ایک مرتبہ حکومت کو ہی بدل کر دیکھیں۔
ملک کا نام بھلے ہی بدل دیں لیکن یوروپ اور امریکہ میں انڈیا کے نام سے ہی پکارا جائے گا ۔ آج بھی ہندوستانیوں کو انڈین اور خلیجی ممالک میں ’’ہندی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ کسی بھی ملک میں ہندوستانی کو بھارتی نہیں کہا جاتا۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو چاہئے کہ حقیقت میں جینا سیکھیں اور خواب اور سپنوں کی دنیا سے باہر آئیں۔ ناموں کی تبدیلی کی طویل فہرست تو ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں پھر ایک بار نوٹ بندی ہوگی؟ ہر کرنسی نوٹ اور سکوں پر ریزرو بینک آف انڈیا درج ہے۔ اگر انڈیا کو کرنسی اور سکوں سے نکالنا ہے تو پھر نوٹ بندی کرنی ہوگی۔ نریندر مودی کیا کرنسی سے نام ہٹانے کوئی نیا طریقہ کار اختیار کریں گے یا موجودہ کرنسی کو ناقابل چلن قرار دیا جائے گا۔ انڈیا اور بھارت کی لڑائی میں ہندوستان کو بھلادیا گیا ۔ کسی بھی پلیٹ فارم پر بحث صرف اس بات کی ہورہی ہے کہ انڈیا اور بھارت میں کوئی فرق نہیں لیکن کسی نے یہ تذکرہ نہیں کیا کہ ملک کا ایک اور نام ہندوستان بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان کے لفظ سے کسی کو اعتراض نہیں۔ انڈیا کو بھارت کرتے ہوئے خود بی جے پی نے ہندوتوا کو فراموش کردیا ہے۔ بی جے پی کی ساری سیاست ہندوتوا پر منحصر ہے اور اپنے ایجنڈہ سے انحراف کرتے ہوئے نیا لفظ بھارت مسلط کیا جارہا ہے۔ حالانکہ ہندوتوا ایجنڈہ کیلئے ہندوستان سے بہتر کوئی لفظ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ بی جے پی کے نام میں بھارت شامل ہے، لہذا نریندر مودی انڈیا کی جگہ بھارت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دستور ہند کا آغاز بھارت اور انڈیا کے نام سے شروع ہورہا ہے۔ دستور سازوں نے خود ملک کو انڈیا اور بھارت کا نام دیا ۔ 2016 ء میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا جس میں کہا گیا کہ ہر شہری کو اختیار ہے کہ وہ ملک کے لئے انڈیا کہے یا پھر بھارت کا استعمال کریں۔ لفظ بھارت کو مسلط کرنے کیلئے کئی دستوری ترامیم کرنی ہوں گی اور ممکن ہے کہ 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں مودی حکومت کوئی پہل کرسکتی ہے۔ عام آدمی کو اس بات سے کوئی پرواہ نہیں کہ ملک کا نام انڈیا ہو یا بھارت۔ ہر کسی کی زبان پر بس یہی جملہ ہے کہ ’’پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘‘۔ ملک کو انڈیا کہیں یا پھر بھارت لیکن جب تک وجود باقی رہے گا ، اس وقت تک علامہ اقبال کے ترانہ ہندی کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے گی۔ فوج بھی فخر کے ساتھ ترانہ ہندی کی دھن بجاتی ہے۔ نام کے اس تنازعہ میں ہم گفتگو کا اختتام ’’ترانہ ہندی‘‘ کے اس مصرعہ سے کریں گے ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا