سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے جناب مجتبیٰ حسین کو خراج عقیدت

   

شمیم علیم

کچھ ہی گھنٹوں پہلے کی بات لکھی ہے حیدرآباد میں رات کے گیارہ بج رہے ہوں گے جب میں نے ظہیر الدین علی خان سے مجتبیٰ صاحب کی صحت کے بارے میں تفصیلی بات کی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ ان کی تیمارداری صحیح طریقہ سے نہیں ہو رہی۔ ظہیر الدین علی خان نے وعدہ کیا کہ وہ ایک لیڈی نرس کا انتظام کردیں گے۔ ظہیر الدین، عمر کے فرق کے باوجود مجتبیٰ صاحب سے بہت قریب تھے۔ مجھے اطمینان ہوا کہ شاید ہم ان کو کچھ تو راحت پہنچاسکیں۔ لیکن یہ بھول گئے کہ وہ خود دار آدمی کسی کا احسان لینا پسند نہیں کرتا۰
امریکہ میں رات کے گیارہ بجے تھے جب میں سونے کے لئے بستر پر گئی اور پھر فون پر ایک خبر نے میرے ہوش اڑا دیئے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر اتنی جلدی چلے جائیں گے۔ میں نے پریشان ہوکر ادھر ادھر فون کرنا شروع کیا۔ لیکن حقیقت کو کون ٹال سکتا ہے۔ نیند غائب ہوگئی پچھلے ہی برسوں کی تصاویر ذہن کے گوشوں سے ابھر ابھر کر سامنے آرہی تھیں۔
مجتبیٰ صاحب سے میری ملاقات تو 2003 کے بعد ہی ہوئی۔ پہلے میں نے انہیں صرف ایک آدھ بار دیکھا تھا۔ وہ بھی اپنی بہن شفیقہ فرحت کے ساتھ طنز و مزاح کی محلفوں میں امریکہ آنے کے بعد جب ایک سیاست داں کی طرح میں نے اپنی کشتی کا رخ انگلش کے بجائے اردو کی طرف موڑ دیا اور میری پہلی کتاب عکس کائنات شائع ہوئی تو حسن چشتی صاحب نے یہ کتاب تبصرہ کے لئے مجتبیٰ صاحب کے پاس بھجوائی تو ان کے جملے مجھے آج بھی یاد ہیں۔ ’’کتابت کی غلطیوں کے باوجود کتاب بہت اچھی ہے‘‘۔
میری دوسری کتابیں شائع کروانے میں مجتبیٰ صاحب نے میری بہتر رہنمائی کی۔ انہوں نے ہی مجھے حیدرآبادی ادبی دنیا میں متعارف کروایا۔ میں جب بھی حیدرآباد آتی وہ سید امتیاز الدین اور زاہد علی خان سے مل کر کسی نہ کسی پروگرام کا اہتمام کردیتے۔ میں جب بھی حیدرآباد آوںگی آنکھیں اسی منظر کی متلاشی رہیں گی۔مجتبیٰ حسین بطور ایک فنکار طنز و مزاح کے سپاسالار، مکالمہ نگار ہیں تو مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ ان کے بارے میں لکھیں گے۔
میں انہیں بطور ایک انسانیت کا علمبردار جانتی ہوں۔ اتنا خلوص ، اتنا پیار، ہر ضرورتمند کے لئے آگے بڑھ کر کام کرنا۔ لوگوں کے پاس جاجاکر سب لوگوں ، ضرورت مندوں کی سفارشیں کرنا لیکن اپنے لئے انہوں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ دہلی میں ان کے دوستوں اور جاننے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اگر وہ چاہتے تو اپنے لئے بہت کچھ کرواسکتے تھے لیکن ان کی خودار طبعیت نے کبھی یہ گوارہ نہیں کیا۔ ان کی مالی حالت بھی کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ ان کا کمرہ اردو کے ایوارڈس سے بھر کیا تھا۔ لیکن کبھی ان کے انداز گفتگو میں ذرا بھی تکبر نہیں تھا۔ ہر روز ایک نیا ایوارڈ ان کی زندگی کا معمول بن گیا تھا۔فون پر تقریباً ہر ہفتہ ان سے بات ہوتی تھی۔ لیکن بہت ہی مختصر لیکن اس میں بھی وہ ایسے چبھتے ہوئے جملے چھوڑ دیتے جس کا لطف ہی الگ ہوتا۔
پچھلے دو ایک برسوں سے مجتبیٰ صاحب کے انداز گفتگو میں واضح تبدیلی آئی تھی۔ وہ شوخی و طنزو مزاح بہت کم ہوگیا تھا، کافی Dipressed رہنے لگے تھے اکثر کہتے میں نے ایک بھرپور زندگی گذاری ہے۔ اب اور کچھ نہیں چاہئے۔ اللہ سے دعا کرو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ میرے خیال سے اس ڈپریشن کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ جب انسان کے پاس کوئی چیلنج نہ رہے تو آدمی پژمردہ ہو جاتا ہے۔ جینے کی آرزو نہیں رہتی۔ مجتبیٰ صاحب نے زندگی میں بے انتہا شہررت و عزت حاصل کرلی تھی۔ اردو کے سارے ایوارڈس بلکہ پدم شری بھی ان کے دامن میں آگرے تھے۔ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی وہ آرزو کرتے۔ جس کے لئے جستجو کرتے۔ دوسری وجہ حیدرآباد کا ادبی ماحول تھا۔ جب وہ دہلی جاتے تو بہت خوش رہتے۔ وہاں کا موسم وہاں کا ادبی ماحول ان میں ایک نئی جان ڈال دیتا۔ وہاں انہیں ذہنی رفاقت زیادہ ملتی۔ حیدرآباد ادبی لحاظ سے بنجر ہوتا جارہا ہے۔ یہاں اب کوئی ایسی عظیم ادبی شخصیت نہیں رہی جس پر حیدرآباد فخر کرسکے۔ سالوں ہو جاتے ہیں کسی ادبی محفل کا انعقاد نہیں ہوتا۔ برسوں ہوگئے یہاں کوئی عالمی کانفرنس نہیں ہوئی۔ نہ اردو اکیڈیمی نے ایسا کوئی پروگرام کیا جس پر فخر کیا جاسکے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ آپ کے سب دوست صفحہ ہستی سے اٹھتے چلے گئے۔ اب کوئی بھی شخص ایسا نہیں رہا جس سے وہ ادبی بحث و مباحثہ کرتے۔ جس سے انہیں ذہنی سکون ملتا اور محفل میں رہنے کے باوجود بھی وہ تنہا رہ گئے اور یہ تنہائی آہستہ آہستہ انہیں دیمک کی طرح چاٹ رہی۔
کچھ ذہنی تناو اور کچھ گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو ادبی اور سماجی محفلوں سے الگ کرلیا۔ کالم نگاری تو انہوں نے پہلے ہی چھوڑ دی تھی۔ لگتا ہے اب ان کے قلم کو بھی زنگ لگ گیا ہے۔ صبح کبھی باہر نکل کر وہ سیاست کا ایک چکر لگالیتے اور زیادہ تر ظہیر الدین علی خان کے پاس نیچے ہی بیٹھتے۔ میرے خیال سے ان کا آخری چکر سرجری کے کچھ دنوں بعد تھا وہ بھی کسی کی نوکری کی سفارش کرنے۔
ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیوی بھی بقید حیات اور صحت مند ہیں
مجتبیٰ حسین کی سرجری ڈسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوئی اور بدقسمتی سے وہ اپنے پوتے کی شادی میں بھی شرکت نہیں کرسکے۔ اس کے بعد سے ان کی صحت گرتی ہی رہی۔ پچھلے تین چار ہفتوں سے وہ اپنی یادداشت بھی کھوچکے تھے۔ میں نے انہیں ویڈیو پر دیکھا تھا۔ سوکھ کے کانٹا ہوگئے تھے اور خاموش پڑے تھے۔میں اکثر سوچتی تھی کہ میرے گذرجانے کے بعد مجتبیٰ صاحب ضرور میرے لئے ایک کالم لکھیں گے یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ حالات برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔

مجھے یہ احساس ندامت ہے کہ مجتبیٰ صاحب اپنے دوستوں کی معمولی سی معمولی تکلیف پر تڑپ جاتے تھے لیکن ہم ان کا یہ قرض نہیں چکا سکتے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت کرے اور انہیں جنت نصیب کرے۔ آمین۔