سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

   

مودی امریکہ میں … ’’انڈیا فار سیل‘‘ کی سرگرمیاں
مولانا کلیم صدیقی کا قصور کیا ہے … یوگی کی ووٹ بینک سیاست

رشیدالدین
نریندر مودی آخرکار کورونا کی قید سے آزاد ہوگئے اور بیرونی ممالک کی تفریح کا محبوب مشغلہ بحال ہوگیا ۔ کورونا وباء کے سبب وزیراعظم بیرونی دوروں سے محروم رہے اور یہ عرصہ ظاہر ہے کہ کسی قید سے کم نہیں تھا ۔ تقریباً دیڑھ سال کے عرصہ بعد مودی پہلے بیرونی دورہ پر امریکہ پہنچ گئے۔ کورونا وباء نے مودی کے بیرونی دوروں کی رفتار پر روک لگادی تھی اور اگر وباء نہ ہوتی تو شائد دوروں کی فہرست میں مزید 10 تا 15 ممالک کے نام شامل ہوجاتے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دوسری میعاد کی تکمیل تک مودی کا ورلڈ ٹور مکمل ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام شامل ہوجائے۔ جواہر لال نہرو کی ’’بھارت ایک کھوج‘‘ کی طرح مودی ’’دنیا ایک کھوج‘‘ کے عنوان سے اپنی ریسرچ شائع کرسکتے ہیں۔ جون 2014 ء سے نومبر 2019 ء تک مودی نے 96 ممالک کا دورہ کیا جو ہندوستان کے کسی بھی وزیراعظم کے مقابلہ ایک ریکارڈ ہے۔ کورونا کے قابو میں آنے اور بیرونی دوروںکی اجازت ملتے ہی مودی اپنے جگری دوست ٹرمپ کے ملک پہنچ گئے۔ اب وہاں ڈیموکریٹس کا اقتدار ہے لہذا دیکھنا ہوگا کہ مودی اپنے دوست سے ملاقات کرتے ہیں یا نہیں ۔ دونوں نے ایک دوسرے کے حق میں انتخابی مہم چلائی تھی ۔ امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی مودی نے ’’انڈیا فار سیل‘‘ سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے نامور امریکی صنعت کاروں سے ملاقات کی اور ہندوستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ صنعت کاروں سے ملاقات مودی حکومت کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے۔ جس طرح ملک میں اہم شعبہ جات کو کارپوریٹ اداروں کے حوالے کرنے کی مہم جاری ہے، اسی طرح بیرونی کمپنیوں کو دعوت دیتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد تازہ کردی گئی ۔ ملک کے 13 اہم شعبہ جات میں سرمایہ نکاسی کے ذریعہ حکومت 6 لاکھ کروڑ کی آمدنی کا نشانہ رکھتی ہے ۔ جن عوامی شعبہ جات میں مودی اور امیت شاہ کے قریبی صنعتی گھرانوں کی حصہ داری کا فیصلہ کیا گیا ان میں ریلویز ، ایرپورٹس ، روڈ ، برقی ، گیاس پائپ لائین ، موبائیل ، اسپورٹس اور ہوٹلس شامل ہیں۔ خانگی اداروں کی حصہ داری کے نتیجہ میں عوام کیلئے خدمات مہنگی ہوجائیں گی۔ ہم دو ہمارے دو کے تحت مودی۔امیت شاہ کیلئے امبانی اور اڈانی پر حکومت کی تمام تر مہربانیاں ہیں۔ عوامی شعبہ کے اداروں کی فروخت کا آغاز کرتے ہوئے لاکھوں ملازمین اور مزدوروں کے روزگار کو خطرہ پیدا کردیا گیا۔ اچھا ہوا حکومت اور اقتدار میں کارپوریٹ سیکٹر کی حصہ داری کی گنجائش نہیں ہے ورنہ حکومت کے اختیارات بھی امبانی اور اڈانی کے حوالے کردیئے جاتے۔ ویسے بھی ان صنعتی گھرانوں کے اشارہ پر کام کرنے والے اور کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کرنے والے جب حکومت کے سربراہ ہوں تو فکر کی ضرورت نہیں ۔ عوامی اثاثہ جات اور قدرتی وسائل پر قبضہ کیلئے دو ہی کافی تھے لیکن مودی امریکی اداروں کے سرخ قالین استقبال کے لئے تیار ہیں۔ مغلوں کے دور میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کے نام پر انٹری لیتے ہوئے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا لیکن اس مرتبہ امریکی اداروں کو موقع دینے کا امکان ہے۔ مودی کے دورہ کا مقصد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب ، امریکی صدر بائیڈن اور دیگر سربراہان مملکت سے ملاقات کے ذریعہ تعلقات کو بہتر بنانا ہے لیکن نریندر مودی نے امریکی ٹاپ صنعتکاروں سے انفرادی ملاقات کرتے ہوئے وزیراعظم سے زیادہ اڈانی اور امبانی کے سی ای او کا رول ادا کیا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار سودیشی اور میک ان انڈیا کا نعرہ لگاتے رہے ہیں لیکن امریکی کمپنیوں کو مدعو کرتے ہوئے خود اپنی پالیسی سے انحراف کرلیا گیا ۔ ملک کے وسائل بیرونی کمپنیوں کو فروخت کرنے کی تیاری کے ساتھ حب الوطنی اور دیش بھکتی کا نعرہ بھی برقرار ہے۔ یہ کیسی دیش بھکتی ہے کہ ایسٹ انڈیا کی طرح بیرونی کمپنیوں کو ملک کے وسائل لوٹنے کی اجازت دی جائے ۔ اگر یہی کام کانگریس حکومت کرتی تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا اور ملک سے غداری کا الزام عائد کیا جاتا ۔ آپ کریں تو دیش بھکتی اور کوئی دوسرا کرے تو دیش دروہی ۔ اگر ملک سے وفاداری کا یہی پیمانہ رہے تو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے سوا کوئی دیش بھکت نہیں رہے گا ۔ ملک کے ساتھ یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ جن کا جدوجہد آزادی سے کوئی دور کا واسطہ نہیں اور جو انگریزوں کے جاسوس تھے ، آج ان کے جانشین دوسروں میں دیش بھکتی کا سرٹیفکٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کا یہ ساتواں دورہ امریکہ ہے۔ مودی شائد بھول گئے کہ گجرات فسادات کے بعد امریکہ نے کئی برسوں تک ویزا دینے سے انکار کرتے ہوئے داخلہ پر پابندی عائد کردی تھی ۔ امریکی صنعت کاروں سے مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے بات کی یا پھر امبانی اور اڈانی کے نمائندہ کا رول ادا کیا ، اس کا خلاصہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے وقت ہوجائے گا ۔ سرمایہ کاری کے بعد وسائل اور آمدنی پر کس کا کتنا حصہ ہوگا ، اس کی جانچ کون کرے گا ؟ امریکہ اور دیگر ممالک کو مودی افغانستان سے خطرہ کے بارے میں آگاہ کرنے کے مشن پر ہیں۔ خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ سوائے مالدیپ کے تمام پڑوسی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ مودی حکومت اپنی ضرورت اور سہولت کے لحاظ سے دوستوں کو تبدیل کرتی ہے اور ملک کے لئے خطرہ بننے والوں کے نام بھی ضرورت اور سہولت کے لحاظ سے طئے کئے جاتے ہیں۔ کل تک پاکستان دہشت گردی کے اعتبار سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے لئے خطرہ تھا لیکن اب افغانستان سرفہرست ہے۔ 20 برسوں تک جہاں سرمایہ کاری کے ذریعہ اہم پراجکٹس تعمیر کئے گئے ، وہ افغانستان اچانک خطرہ دکھائی دینے لگا ہے ۔ کیا پاکستان سے اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ؟ شائد اسی لئے امریکہ روانگی کے لئے وزیراعظم مودی نے افغانستان کے فضائی حدود کے بجائے پاکستانی فضائی حدود سے گزرنا پسند کیا۔ اچھا ہوا راستہ میں عمران خان کا خیال نہیں آیا ، ورنہ سابق میں نواز شریف کی طرح عمران خان سے ملاقات کے لئے پاکستان میں اتر جاتے۔
اترپردیش میں انتخابی کامیابی کیلئے مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے میں مصروف یوگی ادتیہ ناتھ نے ممتاز عالم دین مولانا کلیم صدیقی کو نشانہ بنایا ہے ۔ مولانا کلیم صدیقی مبلغ اسلام کے ساتھ ایک مخلص مذہبی رہنما ہیں جن کو تمام مذاہب میں احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام کے پیام وحدانیت ، امن اور بھائی چارہ کو بندگان خدا تک پہنچاتے ہوئے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست اور راہِ نجات پر لانے کا کام مولانا کلیم صدیقی کر رہے تھے ۔ ان پر تبدیلیٔ مذہب اور بیرونی فنڈس کے حصول کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا ۔ مولانا کی سرگرمیاں دستور اور قانون کے دائرہ میں ہیں لیکن یوگی حکومت کو مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا مقصود تھا تاکہ اسمبلی انتخابات میں مسلمان بی جے پی کے خلاف متحد نہ ہوسکیں۔ حوصلے پست کرنے کے مقصد سے مولانا کلیم صدیقی کو نشانہ بنایا گیا اور یوگی اپنے مقصد میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں، وہ اس لئے کہ عالمی سطح کی شخصیت کی جھوٹے الزامات کے تحت گرفتاری پر مسلم دنیا میں سناٹا طاری ہے۔ یوگی حکومت نے یہ پیام دے دیا ہے کہ جو کوئی بھی ان کی مخالفت کرے گا کل کے دن وہ عتاب کا شکار بن جائے گا ۔ اگر امت مسلمہ میں بے حسی جاری رہی اور وہ خواب غفلت کا شکار رہے تو پھر کوئی عالم ، کوئی قائد ، کوئی جماعت ، کوئی ادارہ اور کوئی مدرسہ محفوظ نہیں رہے گا ۔ مبصرین کے مطابق مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری دراصل یوگی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ کلیم صدیقی سے قبل دو علماء کو تبدیلی مذہب کے الزام کے تحت گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ یوگی کے پاس ترقی کا کوئی ایجنڈہ نہیں ، لہذا ہندو مسلم کارڈ کھیل رہے ہیں۔ دستور میں اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے، عمل کرنے اور اس کے پرچار کا ہر شہری کو اختیار دیا ہے ۔ مولانا کلیم صدیقی پر الزامات عائد کرنے والوں کو شائد یہ پتہ نہیں کہ اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کسی کو بھی جبری طور پر مسلمان نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک تبدیلی مذہب کا معاملہ ہے عیسائی مشنریز کی مہم سے ہر کوئی واقف ہے لیکن مشنریز کے خلاف کارروائی کی کوئی بھی ہمت نہیں کرسکتا۔ مشنریز پر ہاتھ ڈالنا دراصل امریکہ ، برطانیہ اور دیگر عیسائی ممالک کی ناراضگی مول لینا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ہندوستان میں جب کبھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کوئی ملک آواز تک نہیں اٹھاتا۔ چند ایک ممالک دور سے ہی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی مسلم حکمراں نے آج تک ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف حکومت کو انتباہ نہیں دیا۔ فسادات میں ہزاروں مسلمان ہلاک کئے گئے، شریعت میں مداخلت کی گئی اور واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کا خصوصی موقف ختم کردیا گیا لیکن عالم اسلام پر سناٹا طاری ہے۔ اگر ایک بھی عیسائی مشنری کو نشانہ بنایا جائے تو دنیا بھر سے ہندوستان کے خلاف پابندیوں کی آواز اٹھنے لگتی ہے۔ مدر ٹریسا کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین سیویلین ایوارڈ ’’بھارت رتن‘‘ دیا گیا جو عیسائی دنیا کو خوش کرنے اور مشنریز کی سرگرمیوں کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ آج تک کسی مسلمان مذہبی رہنما کو اس طرح کا اعزاز نہیں دیا گیا، حالانکہ دنیا ان کی خدمات کی معترف ہے۔ مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کے بعد مسلمانوں میں بے حسی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مسلم جماعتیں ، قیادت حتیٰ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ محض نمائشی اداروں کے سواء کچھ نہیں۔ مسلمانوں کو دراصل امیر مینائی کے اس شعر کی تعبیر ہونی چاہئے ؎
کانٹا کہیں چبھے تو تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے