سارے ملزمین بے قصور تو پھر پہلو خان کو کس نے قتل کیا

   

اشوک مہتا
مودی حکومت میں کہیں بھی ،کبھی بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے اور کوئی غیر یقینی نتیجہ بھی آجائے تو اب عوام اور خاص کر اقلیتوں کو کوئی حیرانی نہیں ہورہی ہے کیونکہ آئے دن سرے عام جرم کرنے والے ملزموں کو با عزت بری کیا جارہا ہے اور اسی تناظر میں پہلو خان مقدمہ میں ہوئے فیصلے سے کوئی حیرت نہیں ہوئی لیکن مایوسی ضرور ہوئی ہے ۔الور ڈسٹرکٹ عدالت نے 14 اگست کو پہلو خان ہجومی تشدد مقدمہ میں سبھی 6 بالغ ملزمین کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ ایڈیشنل ضلع و سیشن جج جسٹس سریتا گوسوامی نے پیش کیے گئے سبھی ثبوتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس فیصلہ سے پہلو خان کے اہل خانہ اور اقلیتی طبقہ میں مایوسی پھیلنا فطری امر ہے۔ انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے پہلو خان کو کسی نے نہیں مارا۔ حالانکہ پہلو خان کے ہجومی تشدد کا ویڈیو دو سال پہلے ہی وائرل ہو گیا تھا اور اس ویڈیو کی بنیاد پر پولس نے ثبوت جمع کیے تھے لیکن جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا، وہ سب بری کر دیئے گئے ہیں۔ عدالت نے صاف لفظوں میں انھیں بری کر دیا ہے لیکن عوام کے دلوں میں یہ سوال اب بار بار اٹھ رہا ہے کہ کیا واقعی پہلو خان کو کسی نے نہیں مارا؟دراصل پہلو خان ہجومی تشدد معاملہ میں 9 افراد کو ملزم بنایا گیا تھا جن میں 6 بالغ تھے اور 3 نابالغ شامل تھے۔ عدالت نے 6 بالغ ملزمین کو بری کر دیا اور 3 نابالغ ملزمین کی سماعت جوینائل کورٹ میں کیے جانے کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلہ پر عوام کا سخت رد عمل آنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں راجستھان کے چیف منسٹر اشوک گہلوت نے پہلو خان ہجومی تشدد کے سبھی ملزمین کو بری کیے جانے کے بعد ضلع و سیشن عدالت میں اپیل دائر کرنے کی بات کہی ہے، وہیں دوسری طرف سورا بھاسکر اور اونیر جیسی معروف ہستیوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے اس فیصلہ پر حیرانی ظاہر کی ہے۔ حالانکہ ہندوتوا ذہنیت کے لوگ عدالت کے اس فیصلہ پر جشن منا رہے ہیں۔اشوک گہلوت نے پہلو خان ہجومی تشدد معاملہ میں عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد کہا کہ اس معاملے میں تمام ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف وہ اپیل کریں گے۔گہلوت نے 14 اگست کو ہی اس تعلق سے ٹوئٹ کیا تھا جس میں انھوں نے لکھا کہ ہم نے ہجومی تشدد کے خلاف اسی مہینے کے پہلے ہفتے میں قانون بنایا ہے۔ ہم مرحوم پہلو خاں کے خاندان کو انصاف دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس سلسلے میں گہلوت نے 15 اگست کو بھی ٹوئٹ کیا

جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ہماری حکومت نے سوچ سمجھ کر اس (ہجومی تشدد) قانون کو منظورکروایا ہے اور جلد ہی یہ نافذ ہو جائے گا اور پہلو خان معاملے میں بھی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم واپس اپیل کریں گے۔معروف فلمی ہستی اور سماجی کارکن سورا بھاسکر نے تو عدالت کے فیصلے کو انتہائی شرمناک قرار دیا۔ انھوں نے اس فیصلہ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ بے حد شرمناک۔ یہ لنچنگ پوری طرح کیمرے میں قید ہوئی ہے۔ ہم ایسی ریاست میں رہتے ہیں جو چاروں طرف سے شرپسندی سے بھرپور ہے۔ قانون، آئین اور یہاں تک کہ سبھی ثبوت بے معنی نظر آ رہے ہیں۔ یہ تاریک دور ہے۔بالی ووڈ ہدایت کار اونیر نے بھی پہلو خان معاملہ میں عدالتی فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ان دنوں مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں مایوس ہوں، غصہ کروں یا پھر ناامیدی محسوس کروں۔واضح رہے کہ ہریانہ کے ضلع نوح (میوات) کے رہنے والے پہلو خان ایک ڈیری چلاتے تھے۔ وہ یکم اپریل 2017 کو بھینس خریدنے کے لئے جے پور گئے لیکن زیادہ دودھ ملنے کی امید پر گائے خرید لی۔ انہیں الور میں ہندو تنظیموں سے وابستہ اور مبینہ گائو رکشکوں نے گھیر لیا اور ان کی پٹائی کی۔ واردات میں پہلو خان کو شدید زخمی ہوئے ، ان کے علاوہ ان کے بیٹے سمیت 5افراد بھی زخمی ہو ئے تھے۔ علاج کے دوران اسپتال میں پہلو خان زخموں کی تاب نہ لا سکے اور چل بسے۔ہجومی تشدد کے اس واقعہ کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور کئی سماجی کارکنان و تنظیموں نے اس طرح کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی لیکن کچھ ہندوتوا ذہنیت کے لوگوں نے شر پسند عناصر کا حوصلہ بڑھانے کا کام کیا۔ اس درمیان ایک فیکٹ فائنڈنگ (حقائق کا پتہ چلانے) ٹیم نے میوات کا دورہ کر کچھ ایسی باتیں سامنے لائیں جس سے ظاہر ہوا کہ پولس پورے معاملے کو دبانے اور ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کچھ نکات پیش کیے جو اس طرح ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق پولس کوپہلو خان کے قتل کا پتہ 2 اپریل کو صبح 4.24 منٹ پر ہوا۔ تحقیق کرنے پر پایا گیا کہ واقعہ یکم اپریل شام 7 بجے کا ہے۔ جائے وقوعہ سے پولس اسٹیشن کا فاصلہ محض 2 کلو میٹر ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق پولس کو تقریباً 9 گھنٹے بعد واقعہ کی اطلاع حاصل ہوئی۔ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے کہ پہلو خان کا بیان رات 11 بج کر 40 منٹ پر ریکارڈ کر لیا گیا تھا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب پولس کو اطلاع ہی اگلی صبح چار بجے حاصل ہوئی تو پھر بیان ساڑھے چار گھنٹے قبل کیسے درج کر لیا گیا۔حملے کے آدھے گھنٹے بعد پولس پہلو خان اور ان کے بیٹے کو اسپتال لے کر گئی۔ جبکہ ایف آئی آر میں کسی چشم دید پولیس عہدیدار کا نام نہیں ہے۔ انہیں مقدمہ میں گواہ تک نہیں بنایا گیا۔قبل از مرگ دئیے گئے اپنے بیان میں پہلو خان نے 6 افراد کے ناموں کا تذکرہ کیا تھا۔ پہلو خان کے بیان کے مطابق ان پر حملہ کرنے والے کہہ رہے تھے کہ وہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے ارکان ہیں۔ ایسے میں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب پہلوخان اس علاقے کا رہائشی ہی نہیں تھا تو اسے انہیں 6 افراد کے نام یاد کس طرح رہ گئے۔ آخر کس نے اسے یہ نام دئیے تھے؟پولس رپورٹ میں کہا گیا کہ پہلو خان کے قبل از مرگ بیان کی جانچ کی گئی اور یہ پایا گیا کہ 6 ملزمان اس وقت گئو شالہ میں موجود تھے۔تمام 6 ملزمان نے تحقیقات میں پولس کو یہ بتایا کہ جائے وقوعہ پر ان کے موبائل فون موجود نہیں تھے اور پولیس نے ان کے اسی بیان کو ثبوت مان لیا۔تمام ملزمان 5 مہینے تک فرار رہے اور اچانک پولیس کے پاس آکر اپنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے یہ انکشاف کرتے ہیں کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود ہی نہیں تھے۔ یہ بات بھی پولس کی جانچ پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔بہروڑ کے تین سرکاری ڈاکٹروں نے بیان دیا کہ پہلو خان کی موت ان زخموں کی وجہ سے ہوئی جو اسے حملہ کے دوران لگے تھے۔پولیس نے سرکاری ڈاکٹروں کی رپورٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک خانگی اسپتال ( جس کے مالک بی جے پی کے رہنما

اور مرکزی وزیرہیں )کے ڈاکٹروں کی بات سچ مان لی۔بی جے پی رہنما کے دواخانوں کے ڈاکٹروں نے پولیس کو بتایا کہ جب پہلو خان اسپتال پہنچا ، تو اس کی حالت ٹھیک تھی۔ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا اور سینے میں درد کی شکایت تھی۔ اس بنیاد پر ڈاکٹروں نے پہلو خان کی موت کی وجہ حرکت قلب کا بند ہو جانا قرار دے دیا۔ان تمام بیانات اور ہجومی تشدد کا ویڈیو وائرل ہونے کے باوجود عدالت کی جانب سے جو فیصلہ سنایا گیاہے اس کی وجہ سے پہلو خان کے افراد خاندان میں ایک قسم کی مایوسی پائی جاتی ہے تو دوسری جانب شرپسندوں کے حوصلے اور بھی بلند ہوں گے جو اس طرح کے واقعات کو انجام دینے میں اب اور زیادہ متحرک ہوسکتے ہیں۔٭