پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس
یہ سال کا ایک ایسا وقت ہے جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ سانتاکلاز تحفے تحائف کے ساتھ گھروں میں آتے ہیں۔ اس مرتبہ اگر وہ تحائف لئے گھروں کو آئیں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ کئی لوگوں کو مایوس کریں گے۔ اس کے باوجود لوگوں کو یقین ہے کہ سانتاکلاز ضرور آئیں گے۔ یہ دراصل بچوں کی تفریح و دل بہلائی سے محظوظ کرنے کی کہانی ہے۔ ایک شخصیت کو میں نے دیکھا اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اور سانتاکلاز میں کسی بھی طرح کی مشابہت نہیں پائی جاتی ہے۔ تاہم یہ کوئی بھی نہیں جانتا کہ سال بھر ہندوستان کا دورہ کون کررہا ہے اور کون گھوم پھر رہا ہے۔ وہ ایسا ہے جس کا وجود لوگوں کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ حالانکہ لوگ کسی بھی طرح نہیں چاہتے کہ وہ ان کے قریب آئے۔ وہ ایسا ہے جو ہندوستانی عوام کیلئے غیرمطلوب تحائف لایا ہے اور یہ اس کی عادت ثانیہ بن گئی ہے۔ چلئے ہم اس کے تحائف کا شمار کرتے ہیں۔
نئی بلندیوں کو چھونا …
٭ گھروں کیلئے : چلر فروشی افراطِ زر 4.91% تک پہنچ گیا جس میں سے تیل اور بجلی کا افراط زر 13.4% کی بلندی پر پہنچ چکا ہے۔ اس معاملے میں سانتا کا یہ مشورہ ہے کہ آپ ایسی ملازمت یا جاب حاصل کریں جو آپ کو مہنگائی بھتہ اور گھر کا کرایہ دے جبکہ آجر آپ کے بجلی اور پانی کے بلس ادا کرے۔ ٭ کسانوں کیلئے : کسانوں کو صنعتی گھرانوں یا اداروں کو اپنی اراضی یا زمین لیز پر دینے ، صنعتی گھرانوں سے قرض لینے ، اپنی زرعی پیداوار کہیں بھی صنعتی گھرانوں کو فروخت کرنے اور بے زمین زرعی مزدور بننے کی آزادی ۔ یہ الگ کہانی ہے کہ کسانوں نے حکومت کے اس فیاضانہ پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کردیا یعنی کسانوں نے اس قسم کی آزادیوں کے بارے میں صنعتی گھرانوں سے احسان لینے کی پیشکش مسترد کردی۔
پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹورل اسکالرس کیلئے : مرکزی جامعات ، انڈین انسٹیٹیوٹس آف ٹیکنالوجیز آئی آئی ٹیز اور انڈین انسٹیٹیوٹس آف مینجمنٹ (آئی آئی ایمس) میں اساتذہ کی 10 ہزار سے زائد جائیدادیں مخلوعہ ہیں ۔ ان پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹورل اسکالرس کا اصل مقصد پیشہ تدریس کے معزز جاب کو اپنانا ہے۔ یہ خوش بختی کی بات ہے کہ حکومت نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کیا جسے اپناتے ہوئے بغیر اساتذہ کے پڑھایا جاتا ہے۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو جو بیروزگارہیں ، انہیں بے روزگار ہی رکھنا ان کا مقصد ہے۔
نئے تحفظات
٭ درجہ فہرست طبقات و قبائل اور او بی سی کیلئے : جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مختلف مرکزی یونیورسٹیز میں اساتذہ کی 10 ہزار سے زائد جائیدادیں مخلوعہ ہیں ، ان میں 4,126 جائیدادیں درج فہرست طبقات ، درج فہرست قبائل اور او بی سیز کیلئے محفوظ ہیں۔ ڈریئے مت ، تحفظات کا سلسلہ جاری ہے۔ تحفظات کی پالیسی کو ان لوگوں نے اپنے فائدے کے مطابق ڈھالا ہے۔ عہدوں میں اب تحفظات باقی نہیں رہے۔ ہاں یہ تحفظات مخلوعہ جائیدادوں کیلئے ہیں۔ حکومت زیادہ سے زیادہ جائیدادیں پیدا کرے گی ، اور ان جائیدادوں کو ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی امیدواروں کیلئے محفوظ کرے گی۔ تحفظات پالیسی پر پورے جذبہ کے تحت عمل کیا جائے گا اور امیدوار اپنے CV میں یہ بھی لکھ سکتا ہے کہ وہ سردست ایک عہدہ پر کام کررہا ہے۔
٭ ماہرین اقتصادیات اور معیشت کے طلباء کیلئے : ایک V شکل کی ریکوری کم از کم وہ جس کا حکومت نے دعویٰ کیا اور یہ سب کچھ چیف اکنامک اڈوائزر کے مشوروں پر کیا گیا جبکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹر کرشنا مورتی سبرامنین نے انڈین اسکول آف بزنس سے جو سیکھا جو قابلیت حاصل کی، اسے حکومت ہند تک پہنچایا لیکن حکومت سے انہیں ایسا کچھ سیکھنے کا موقع نہیں ملا جسے وہ انڈین اسکول آف بزنس تک پہنچا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی نامزد ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر گیتا گوپی ناتھ نے پچھلے ہفتہ دہلی میں توقف کیا۔ انہوں نے ہندوستانی معیشت کی ریکوری کو V شکل کی بجائے K شکل کی قرار دیا۔
آزادی صحافت
٭ آزادی صحافت کیلئے اس معاملے میں ہندوستان کیلئے اعلیٰ درجہ (180 ملکوں میں ہمارے ملک کو 142 واں مقام حاصل ہوا۔ پچھلے سال ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہم 140 مقام پر تھے)۔ ہمارے وزیر اطلاعات و نشریات یہ کہنے میں حق بجانب بلکہ درست ہوسکتے ہیں کہ وہ رپورٹرس وتھاؤٹ بارڈرس کے تیار کردہ درجہ بندی سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہیں تو صحافت کے بارے میں کم از کم ایک یا دو باتیں معلوم ہونی چاہئے۔ ویسے بھی ہمارے وزیر موصوف کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوستان کے ’’رپورٹرس وتھ آرڈرس ‘‘ گولی مارو اور ہارا وائرس جیسے نعروں سے متعلق خبروں کو شائع اور نشر کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرتے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں آزادی صحافت زندہ ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزادی صحافت کے معنی و مطالب واضح نہیں ہے۔ سانتا کلاز اس سلسلے میں مشورہ دیتا ہے کہ انہیں آزادی صحافت کی تعریف و توضیح کیلئے راج دیپ سردیسائی، برکھا دت، کرن تھاپر، ساگاریکا گھوش، پرنجائے گوہا تھاکرتا، راگھو بھٹ، بابی گھوش، پنیا پرسون واجپائی ، کرشنا پرساد ، روبین ، پرانائے رائے اور سدھیر اگروال کو مدعو کریں۔
٭ تمام عوام کیلئے : ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جنہوں نے ناقص غذا ، بچوں کی اموات ، بچوں کے ٹھٹھر جانے ان کا نمو رُک جانے کو یقینی بنائیں گی۔ ان ہی پالیسیوں نے گلوبل ہنگر انڈیکس میں 116 ملکوں میں ہندوستان کو 101 مقام پر لاکھڑا کیا۔ حد تو یہ ہے کہ جملہ بالیدگی کی شرح بھی گر کر 2-0 ہوگئی۔ بہرحال آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔