ششی شیکھر
گزشتہ دس سال سے انتہا پسند قوم پرستی عالمی سطح پر عروج پا رہی ہے۔ فرانس اور امریکہ میں خاص طور پر یہ مسئلہ نمایاں ہے لیکن اس کے نتیجہ میں مذہبی اور نسلی تنازعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سال ایسی تبدیلیاں دیکھی گئیں جن کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
کون پیش قیاسی کرسکتا ہے کہ وزیر اعظم اسرائیل سعودی عرب کا دورہ کریں گے؟ کون تصورکرسکتا ہے کہ سبکدوش ہونے صدر امریکہ کی ایما پر موساد کے ایجنٹ ایران کی نیوکلیر صلاحیت میں کمی کے خواہاں ہوں گے اور اس کے پس پردہ شخص کو خود اس کے شہر میں قتل کردیں گے۔
اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تازہ معاہدہ پر دستخط ہوتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ 2021 مختلف انداز کا ہوگا۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ کانٹے کی طرح چبھنے والے ایران اور متنازعہ ترکی مساوی طور پر اس بات کی علامت ہے کہ اختلافات بہتری کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ نے سوچ سمجھ کر بین الاقوامی امور میں اتھل پتھل پیدا کی تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے عالمی پروٹوکولس سے انتہائی طاقتور جمہوریت سے انحراف کیا تھا۔ انہیں انتخابات میں ناکامی ہوئی لیکن وہ ناکامی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ خوش قسمتی سے امریکی جمہوری ادارے اب بھی طاقتور ہیں اس لئے اعلیٰ سطحی قائدین نے جن کا تعلق عدالت اور فوج سے تھا اور خود ٹرمپ کی پارٹی سے تھا اس بات کو یقینی بناسکے کہ اقتدار کی منتقلی آسانی سے ہو۔
اگر ٹرمپ من مانی کرسکتے تو وہ کسی نہ کسی طرح طویل مدت تک برسر اقتدار رہ جاتے لیکن روس کے صدر ولادمیر پوٹن یا چین کے ژی جن پنگ ایسا کرسکتے ہیں ٹرمپ نہیں۔ جب جوبائیڈن وہائٹ ہاوز میں داخل ہوئے تو ان کے لئے کئی مسائل پہلے ہی سے موجود تھے جن کی تقلید ٹرمپ کی قیادت نے کی تھی اور امریکہ کو ان ممالک کی صف میں شامل کردیا تھا جو کبھی بھی خودغرضی سے بالاتر ہوکر نہیں سوچ سکتے۔
کورونا وائرس کے پھوٹ پڑنے کے بعد امریکہ نے نہ صرف باقاعدہ ادائیگیوں کا سلسلہ روک دیا بلکہ عالمی ادارہصحت نے بھی ہر ممکن قسم کی بڑی غلطیاں کیں جو کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے سلسلے میں تھیں۔ قبل ازیں امریکہ عالمی رہنما کا انتشار کے دنوں میں کردار ادا کرتا تھا لیکن ٹرمپ کی قیادت میں ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ 2020 ہمیں مہاتما گاندھی یا نیلسن منڈیلا جیسے قائدین کی یاددلاتا ہے۔ ایسی عظیم شخصیتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک طرف تو تنگ نظر اور دوسری طرف انتہا پسند ذہنیت کو عروج ہوا اور یہ معمول بن گئی۔ ہمیں یوروپ کی مثال پیش نظر رکھنی چاہئے، چند دنوں تک تو یوروپی ممالک نے ایک دوسرے کی مدد کے لئے ’’انا‘‘ کا استعمال کیا لیکن اس دور کا آغاز انگلینڈ سے ہوا (جو اب یوروپی یونین میں شامل نہیں ہے)۔ فرانس نے اس کی پرواہ نہیں کی، فرانس تو جرمنی کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور نہ جرمنی اٹلی کی کرتا ہے اور دونوں ممالک اپنے کسی پڑوسی ملک کی پرواہ نہیں کرتے۔
یہی رجحان جو ان ممالک میں دیکھا جارہا تھا دیگر ممالک میں بھی پھیل گیا۔ انہوں نے اپنی سرحدات بند کردیں اور اپنے وسائل صرف اپنے لئے مخصوص کردیئے۔ عالمی گاؤں کا خواب ’’خواب پریشاں‘‘ بن گیا لیکن وباء کی وجہ سے کئی ممالک میں اس کی وجوہات اور اس کے علاج کے لئے آلات کا پتہ چلانا شروع کردیا گیا اور انفرادی خلوت کا خیال رکھا گیا۔ اس سے بدتر بات یہ تھی کہ ایسے آلات پر جو معلومات دستیاب تھے انہیں غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ عامرانہ حکومتیں ان کا استحصال کرسکتی تھیں اور اگر یہ معلومات کسی طرح کثیر قومی کمپنیوں کے ہاتھ لگ جاتیں جو صرف اپنے نفع کے لئے کام کیا کرتی ہیں تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
سال کے اختتام پر ہر قسم کے نظریات (سازشی نظریات بھی) منظر عام پر آئے۔ ماہرین کے بموجب آخری وباء اب سے 100 سال قبل منظر عام پر آئی تھی لیکن اب ہر 10 سال میں کوئی نہ کوئی وباء دیکھی جارہی ہے۔ ابھی ہم 2020 کی وباء سے نمٹ رہے ہیں حالانکہ 2020 ختم ہوچکا لیکن زخموں کے نشان اب بھی باقی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کسی قسم کی بھی طاقت کے استعمال سے گریز کررہی ہے لیکن اگر تنازعہ طول پکڑتا ہے تو ناقابل قیاس آفت کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ چین سے متصل سرحدی علاقہ میں گڑبڑ کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو طویل مدتی خانہ جنگی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور یہ مسئلہ آئندہ مزید پیچیدہ ہوسکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہیکہ نئی انسانی اقدار بحران کے ہر وقت سے ابھر آتی ہیں کیا 2021 سے 2020 کے زخم مندمل ہوسکیں گے؟ ہمیں اس کی امید رکھنی چاہئے۔