سال 2020ء میں 11,716 تاجرین کی خودکشی سے اموات

   

تانیہ رائے
کورونا وائرس نے ویسے تو دنیا بھر کو متاثر کیا لیکن ہندوستان پر اس وائرس کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے، خاص طور پر اقتصادی و تجارتی شعبے شدید متاثر ہوئے۔ دوسری طرف بیروزگاری بڑھ گئی۔ ایک طرف معیشت تباہ و برباد ہوکر رہ گئی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پچھلے سال 2020ء میں 11,716بزنس سے جڑی شخصیتوں نے اپنے ہاتھوں اپنی ہی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ این سی آر بی نے یہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ این سی آر بی کے مطابق 2020ء میں تجارت سے جڑی شخصیتوں کی خودکشی کے واقعات 2019ء کی بہ نسبت 29 فیصد زیادہ رہے۔ کرناٹک میں جہاں بی جے پی زیراقتدار ہے، سال 2020ء کے دوران سب سے زیادہ کاروباری لوگوں نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا، جن کی تعداد 1,772 ہے جو سال 2019ء کی بہ نسبت103% زیادہ ہے۔ جب ریاست میں 875 تاجرین نے خودکشی کی تھی۔ واضح رہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) نے اس سلسلے میں جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں، اس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ایک سال کے دوران اس طرح کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی نے ’’ہندوستان میں حادثاتی اموات اور خودکشیاں‘‘ کے زیرعنوان تازہ ترین رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ 11,716 تاجرین کی خودکشی کے واقعات میں سے 11 ہزار سے زیادہ اموات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ ہر سال خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2019ء میں اس طرح کے واقعات کی تعداد میں 2,906 اضافہ ہوا تھا جس میں 2020ء کے دوران 4,356 کا اضافہ ہوا۔ ان تاجرین میں چھوٹے کاروبار کرنے والے تاجرین بھی شامل ہیں۔ پچھلے سال 4,226 چھوٹے تاجرین نے اپنے ہی ہاتھوں میں اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا جبکہ مابقی اموات کو دوسرے تاجرین کے زمرے میں رکھا گیا۔ دوسری طرف تاجرین کی خودکشیوں کے واقعات میں مہاراشٹرا دوسرے نمبر پر ہے جہاں 1,610 تاجرین نے خودکشیاں کیں جو 2019ء کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ اسی طرح ٹاملناڈو میں خودکشی کرنے والے چھوٹے موٹے تاجرین کی تعداد 1,447 رہی جو 2019ء کی بہ نسبت 36% زیادہ ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ملک میں مہاراشٹرا ایک ایسی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ ایم ایس ایم ایز درج رجسٹر ہیں جن کی تعداد 28.38 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ٹاملناڈو ہے جہاں ایم ایس ایم ایز کی تعداد 15.4 لاکھ درج کی گئی ہے۔ ہندوستان میں تجارتی برادری کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بڑا حصہ مائیکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزس (MSMEs) سے تعلق رکھتا ہے اور یہ برادری کسی بھی اقتصادی ہلچل، اتار چڑھاؤ یا پھر کووڈ۔19 سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جے این یو کے سنٹر فار اکنامک اسٹیڈیز اینڈ پلاننگ کے پروفیسر پروین جھا نے ’’دی پرنٹ‘‘ کو بتایا کہ کورونا وائرس بحران کے دوران ان چھوٹے تاجرین کو مالی تعاون کا تیقن نہیں دیا گیا اور حکومت ہند نے ان کی بہت معمولی مدد کی اور وہ بھی بڑی تاخیر سے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے جو معمولی مدد کی وہ قرض کی شکل میں تھی۔ جبکہ کورونا وائرس کی وباء نے چھوٹے اور بڑے تاجرین کو اس قدر زیادہ متاثر کیا کہ ان کے کاروبار پوری طرح ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ ایسے میں حکومت کو قرض کی بجائے فراخدلانہ مالی مدد کرنے کی ضرورت تھی۔
کووڈ۔19 کا ایم ایس ایم ایز پر اثر
حالیہ عرصہ کے دوران ای وائی کے ایک سروے میں ایک ہزار سے زائد ایم ایس ایم ایز انٹرپرینرس کے انٹرویو لئے گئے جن میں سے 70% نے بتایا کہ وہ کووڈ۔ 19 کے دوران کافی متاثر ہوئے، اس کی وجہ آرڈرس میں کمی، کاروبار میں نقصان، خام مال کی دستیابی میں رکاوٹ اور مالی مسائل تھیں۔ ’’اکنامک ٹائمز‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستان میں جو انٹرپرائزیزس ہیں ان میں سے 99% ایم ایس ایم ایز ہیں اور مختلف صنعتوں میں 63 ملین ایم ایس ایم ایز پائے جاتے ہیں اور یہ چھوٹی فرمس ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار میں 29% حصہ ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی ہندوستان کی برآمدات کا 50% ان ہی کی وجہ سے منظر عام پر آتا ہے۔ کووڈ۔ 19 کے بعد حکومت نے لاک ڈاؤن نافذ کردیا تھا اور اس لاک ڈاون پر ملک کی تمام ریاستوں میں عمل کیا گیا جس کے نتیجہ میں ایم ایس ایم ایز شدید معاشی بحران کا شکار ہوگئے تب حکومت ہند نے اس بحران پر قابو پانے کیلئے کئی ایک اقدامات کا اعلان کیا، خاص طور پر آر بی آئی نے ایم ایس ایم ایز اور دوسرے چھوٹے کاروبار کی مدد کیلئے مالیہ فراہم کرنے کی خاطر کئی ایک اقدامات کئے، تاہم ایک پارلیمانی پیانل نے جولائی میں اس بات کو نوٹ کیا کہ ایم ایس ایم ایز کو زیادہ مالی مدد اور راحتی پیاکیج میں بہتری ضروری ہے۔ اس پیانل کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو راحتی پیاکیج پیش کیا ہے، وہ ناکافی ہے۔ اس کمیٹی کی قیادت ٹی آر ایس کے رکن ساجیہ سبھا کے کیشور راؤ نے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت نے قومی سطح پر حکومت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ایم ایس ایم ایز کو جو نقصانات ہوئے، ان کا جائزہ لینے کیلئے کسی بھی قسم کی اسٹڈی کا اہتمام نہیں کیا۔ پارلیمانی پیانل نے اس مسئلہ کا تفصیلی جائزہ لینے پر زور دیا۔ ’’دی پرنٹ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ نوٹ بندی کے دو سال بعد جی ایس ٹی پر عمل آوری کے ایک سال بعد 2018ء تاجرین کی خودکشی کے واقعات میں 3% اضافہ ہوا اور 2019 ء میں تاجرین کے خودکشی کے واقعات 13% بڑھ گئے۔ پروفیسر کمار نے ’’دی پرنٹ‘‘ کو مزید بتایا کہ ملک کے غیرمنظم شعبہ میں پائے جانے والے رجحانات پر ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار کیلئے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے اس شعبہ کو کافی نقصان پہنچا اور چھوٹی کاروباری برادری جو افرادی قوت کا 94% حصہ رکھتی ہے، کافی نقصانات سے دوچار ہوئی اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پہنچے نقصانات کے درد سے وہ ابھی تک مکمل طور پر باہر نہیں نکل پائی تھی کہ اچانک کووڈ۔ 19 آدھمکا اور پھر معیشت تباہ ہوکر رہ گئی۔