سال 2023-24ء کی پہلی پیشگی وارننگ

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

قومی دفتر برائے اعداد و شمار نے سال 2016-17ء میں اپنے اختتام کے قریب پہنچے مالی سال کی آمدنی سے متعلق فرسٹ اڈوانسڈ اسٹیمیٹ (پہلا پیشگی تخمینہ ) شائع کرنے کا عمل متعارف کروایا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ پیشگی تخمینہ اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں کارآمد ثابت ہوگا۔ اگرچہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر اور کچھ نمبرات (اعداد و شمار) کو بڑھایا گیا لیکن تخمینے قابل قدر و اہم معلومات پر مشتمل تھے۔ نومبر تک کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کی جانب سے مرتب کردہ آمدنی اور مصارف سے متعلق تفصیلات (ڈیٹا) بھی بہت اچھے اشارے ہیں۔ یہ تخمینے یا اعدادوشمار وزیر فینانس کو جاریہ سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ اور اگلے سال کے بجٹ کے تخمینہ تک پہنچنے میں مدد کریں گے۔جہاں تک اندازوں یا تخمینوں کا سوال ہے، یہ غلط بھی ہوسکتے ہیں جہاں تک معیشت کا سوال ہے، تین یا چار ماہ کا عرصہ ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مارچ 2020ء کے اواخر تک کورونا وائرس وباء کے پھوٹ پڑنے اور اس کے بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا چنانچہ بجٹ برائے مالی سال 2020-21ء کے تمام اعداد و شمار کا دارومدار صرف اندازوں یا TOSS پر تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ستمبر 2008ء میں جو عالمی معاشی بحران پیدا ہوا تھا، بالفاظ دیگر معاشی انحطاط پیدا ہوا تھا۔ کورونا وائرس وباء کے پھیلاؤ کے دوران 2020-21ء میں ویسے ہی بحران کا سامنا ساری دنیا کو کرنا پڑا اور ہندوستان بھی اس بحران کی زد میں آکر بہت زیادہ متاثر ہوا۔ خاص طور پر کورونا وائرس وباء ہمارے معاشی نمو، افراطِ زر اور روزگار پر خطرناک اثرات مرتب ہوئے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان کا معاشی نمو ایک طرح سے رُک سا گیا، مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بیروزگاری اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔
قومی دفتر برائے اعداد و شمار NSO نے 6 جنوری 2023ء کو ایک صحافتی اعلامیہ جاری کیا جس کے ذریعہ بعض اشارے حاصل کئے جاسکتے ہیں اور اس سے قبل کے راقم آپ کو ان اشاروں کے بارے میں کچھ بتائے، میں چاہوں گا کہ یکم جنوری 2023ء کو ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ میں معیشت اور نئے سال میں اسے درپیش چیلنجز کے بارے میں لکھے گئے اپنے کالم کے ذریعہ اخذ کردہ نتیجہ سے واقف کرواؤں یعنی اپنے کالم میں راقم جس نتیجہ پر پہنچا، اس سے واقف کروانا چاہوں گا۔ میں نے سرکاری اور معتبر ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے مشورہ دیا تھا کہ ہمیں FAE کا جائزہ لے کر یہ پوچھنا چاہئے کہ آیا جس نتیجہ یا Conclusions پر ہم پہنچے ہیں، اس میں ترمیم کی ضرورت ہے یا نہیں۔ یہاں چند روشن نکات ہیں: معمولی یا برائے نام جی ڈی پی (قومی مجموعی پیداوار) (15.4%) بجٹ تخمینہ 11.1% کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوگئی۔ ریوینیو یا آمدنی خوش کن ہے اور حکومت کیلئے زیادہ سے زیادہ رقم لاسکتی ہے یا حکومت کیلئے زیادہ آمدنی کا باعث بن سکتی ہے نتیجہ میں جس 6.4% مالی خسارہ کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، اس کا حصول آسان ہوگا، تاہم کچھ تاریک نکات بھی ہیں۔ FAE میں جو کچھ بھی ہے، وہ میرے انہیں Conclusion میں تبدیلی یا ترمیم کا باعث نہیں بنے گا (ریزرو بینک آف انڈیا کے بلیٹن کی بنیاد پر) کہ جو کھم کا توازن بڑی تیزی کے ساتھ ایک تاریک ہوتے عالمی آؤٹ لک کی جانب جھک رہا ہے اور ابھرتی ہوئی مارکٹس کی معیشتیں زیادہ کمزور دکھائی دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مالی سال 2022-23ء میں جو چیز نمو پا رہی ہے، وہ ہے نجی کھپت (جی ڈی پی کا 57.2%) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ دوسری بات جو تشویش کا باعث ہے، وہ درآمدات ہیں جو قومی مجموعی پیداوار کا 27.4% ہوگی۔ یہ دراصل 2021-22ء کے 19.1% سے بڑھ کر 2021-22ء میں 23.9% ہوا۔ زیادہ برآمدات کے بغیر زیادہ درآمدات اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ہم استعمال کیلئے درآمد کررہے ہیں۔ اس سے روپئے کے شرح تبادلہ پر دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔اگر ہم معاشی سرگرمی کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مارکیٹنگ اور کھدائی (گزشتہ سال جس کی شرح نمو 2.4% رہی) اور مینوفیکچرنگ (1.6%) ان دو شعبوں کے اعداد و شمار قابل اطمینان نہیں بلکہ تشویش کا باعث ہے جو لمحہ فکر فراہم کرتے ہیں، ان شرحوں کا بھی جائزہ لیں تو یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 2021-22ء میں درج کی گئی نمو کی شرحوں سے بہت کم ہے لیکن یہ 2021-22ء میں ریکارڈ کردہ 11.5% سے کم ہوگی۔ FAE جاری کئے جانے کے ایک ہفتہ بعد بھی وزیر فینانس اور نہ ہی متعلقہ وزراء نے اس مایوس کن کارکردگی کی کوئی وضاحت کی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ معیشت کے مذکورہ کلیدی شعبوں کے مایوس کن مظاہرہ کے بارے میں وزیر فینانس اور نہ ہی متعلقہ وزراء نے کوئی وضاحت کی۔
پیداوار گرگئی اور بیروزگاری بڑھ گئی
بیروزگاری سے متعلق آؤٹ لک زیادہ روشن نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے بڑے شعبوں میں زرعی، کانکنی و کھدائی، مینوفیکچرنگ، تعمیراتی، تجارتی، ہوٹلنگ (ہوٹلوں کا شعبہ)، حمل و نقل اور مواضعات جیسے شعبے شامل ہیں۔ سوائے آخرالذکر شعبہ کے (جس کی 13.7% نمو) دوسرے شعبوں میں ہموار شرح نمو ہوگی۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ CMIE نے بیروزگاری کا جو تخمینہ مقرر کر رکھا ہے، وہ درست ہے لیکن افسوس کہ بڑھتی بیروزگاری کے اسباب کا پتہ چلا کر اس مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے حکومت ان لوگوں کو بدنام کررہی ہے جو اُسے بیروزگاری کی شرح پر قابو پانے کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ جہاں تک پیداواری شعبہ کا سوال ہے، FAE میں اس تعلق سے اعداد و شمار برائے سال 2022-23ء گراوٹ کا شکار ہورہے ہیں اور اس کیلئے بھی 2020-21ء میں کورونا وائرس کی پھیلی وباء کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی اس بات کی پیش قیاسی کی گئی ہے کہ 2022-23ء میں تقریباً تمام شعبوں پر معاشی سست روی کا اثر ہوا۔ مثال کے طور پر چاول کی پیداوار، خام تیل اور سمنٹ کے شعبوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے، اس کے علاوہ مختلف بندرگاہوں اور طیران گاہوں پر جو کارگو یا سامان آتا ہے، اس میں بھی گزشتہ سال کی بہ نسبت شرح نمو بہت کم ہوگی۔ خاص طور پر ریلویز کو اس معاملے میں نقصان ہوگا جبکہ صنعتی پیداوار کا جو عشاریہ ہے وہ کانکنی میں یک ہندسی (4.0%)، مینوفیکچرنگ میں (5.0)، الیکٹریسٹی میں (9.4) اور میٹالک معدنیات میں (-6.5) ہوگا جبکہ بڑھتی مہنگائی معیشت کے شعبہ میں پریشانیوں میں اضافہ کرے گی۔ غذائی اشیاء کی WPI، 9.6% ہوگی جبکہ تیار کردہ پراڈکٹس یا اشیاء کی 76% اور تمام اشیاء کی 12.3% ہوگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر فینانس بجٹ برائے سال 2023-24ء میں ان تمام کمزوریوں کو کیسے دور کریں گی۔ یاد رکھئے! ترغیبات یا بیانات سے معیشت ترقی نہیں کرتی یا مہنگائی ، بیروزگاری اور عالمی انحطاط کو ختم کرتی ہے بلکہ ہمیں واضح معاشی پالیسیوں اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ بہرحال یکم فروری 2023ء تک انتظار کیجئے۔