سانس لینا جرم جینا حادثہ ہوجائے گا

   

مودی … 20 سال کا اقتدار … دامن داغدار
گاندھی اور آندھی … روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن

رشیدالدین
’’اقتدار میں نریندر مودی کے 20 سال‘‘ بی جے پی اور گودی میڈیا نے مودی کے اقتدار کے سفر کو لے کر آسمان سر پہ اٹھالیا ہے ۔ گجرات کے چیف منسٹر سے ملک کے وزیراعظم کے عہدہ تک 20 سال کے سیاسی سفر کو ہندوستان کی تاریخ کے درخشاں باب اور مودی کو ہندوستان کے ناقابل شکست اور مسیحا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ جہاں تک کسی بھی شخص کے کارناموں اور خوبیوں کا تعلق ہوتا ہے ، اس کے اظہار کے لئے ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اچھائی خود ابھرکر آتی ہے اور ہر شخص کی زبان سے اظہار بھی ہوتا ہے۔ جس کے پاس کارنامے نہ ہوں اسے مختلف انداز سے فرضی کارناموں کی تشہیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ گزشتہ 20 برسوں میں مودی نے اچھے کام تو نہیں کئے لیکن پروپگنڈہ مشنری کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے گجرات سے نکل کر نئی دہلی پہنچ گئے۔ حقیقی معنوں میں عوامی خدمت گزاروں کو کارناموں کی فہرست پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جب سورج طلوع ہو تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سورج ہے ، اس کی اتنی روشنی ہے اور روشنی کے یہ فوائد ہیں کیونکہ سورج کا طلوع ہونا خود اس کی خصوصیات کو ظاہر کرتا ہے۔ آسان اور عام فہم انداز میں کہیں تو یہ ہوگا کہ لوہے پر سونے کا پانی چڑھانے سے وہ سونا نہیں کہلاتا۔ مودی کے 20 سالہ دور اقتدار کی تاریخ ظلم ، ناانصافی ، قتل و غارت گری اور نفرت کی خونچکا داستانوں سے پُر ہے۔ ہندوستانی تاریخ کے سیاہ اور تاریک دور کو سنہری دور کی طرح پیش کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کی طرح ہے۔ اپنے منہ میاں مٹھو بننا نریندر مودی کی فطرت خاصہ ہے اور اطراف میں بھجن منڈلی تیار کرلی گئی جس کا کام دن رات مودی کے گن گانا ہے ۔ عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کیلئے 20 سال کی ضرورت نہیں بلکہ محض 20 منٹ میں انجام دیا جانے والا کوئی بھی کام عوام کی نظر میں احترام پیدا کرنے کیلئے کافی ہے لیکن مودی کے معاملہ میں عوام پر مقبولیت کو جبراً مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک نے ایسے کئی سیاستدانوں کو دیکھا جو 40 تا 50 برس تک سرگرم سیاست میں رہے لیکن گوشہ گمنامی ان کا مقدر بن گیا ۔ مطلب یہ ہوا کہ مقبولیت کے لئے طویل مدت نہیں بلکہ عوام کی بہتر خدمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ مقبولیت کا جہاں تک سوال ہے ، امیتابھ بچن اور لتا منگیشکر عوام میں مودی سے زیادہ مقبول اس لئے ہیں کہ انہوں نے اپنی اداکاری اور گائکی کے ذریعہ عوام کے دلوں پر حکمرانی کی ہے ۔ ان دونوں کے سامنے سینکڑوں اداکار اور سنگر آئے لیکن عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بناسکے۔ نریندر مودی 7 اکتوبر 2021 ء کو گجرات کے چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ 12 برس تک چیف منسٹر رہنے کے بعد 2014 ء میں وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ اس وقت سے اقتدار میں مسلسل 20 برس کا شمار کیا جارہا ہے ۔ وہ ابھی سے نہرو ، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کے وزارت عظمیٰ پر ریکارڈ کو توڑنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مئی 2014 ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے دوسری میعاد کی تکمیل پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ریکارڈ کی برابری ہوجائے گی لیکن نہرو اور اندرا گاندھی کا ریکارڈ توڑنے کے لئے 2031 ء تک اقتدار میں رہنا ہوگا۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں کہ مصداق نریندر مودی اور ان کے حواری شیخ چلی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں یہ احساس بھی نہیں رہا کہ طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ جس طرح عزائم کبھی بھی صلاحیت کا بدل نہیں ہوسکتے اسی طرح تشہیر کے ذریعہ سیاہ کرتوتوں کو کارنامے کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ سیاہ رنگ پر کوئی بھی رنگ چڑھائیں ، اندر سے سیاہ رنگ اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتا ہے ۔ لہذا نریندر مودی کے سیاہ کارناموں کا ایک تسلسل ہے جسے عوام کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔ بی جے پی اور گودی میڈیا 20 سالہ اقتدار پر کارناموں کی جو فہرست پیش کر رہے ہیں، اس سے زیادہ واقعات تو مودی کے خلاف بطور چارج شیٹ پیش کئے جاسکتے ہیں۔ داخلی سطح پر ہو کہ خارجہ پالیسی ہر سطح پر مودی حکومت ناکام ثابت ہوئی۔ گزشتہ 7 برسوں میں وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے دوست ممالک کی تعداد میں اضافہ توکجا دوستوں کو اپنا دشمن بنالیا ۔ ماہرین نفسیات کی رائے میں جو شخص نجی زندگی میں ناکام رہے، ہر شعبہ میں ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ جو شخص اپنی گھر والی کا نہ ہوسکا اور جنم جنم کا ساتھ نبھانے کیلئے اگنی کے پھیرے لئے تھے، اسے در در کی ٹھوکر کھانے کیلئے چھوڑ دیا گیا ۔ ایسا شخص کسی کا بھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ اچھے دن کا خواب دکھاکر وزارت عظمی پر فائز ہونے کے بعد عوام کے چین و سکون کو غارت کردیا۔ نوٹ بندی سے لے کر پٹرول ، ڈیزل اور پکوان گیاس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دراصل سیاہ کارناموں کی ایک کڑی ہے ۔ 20 سالہ دور اقتدار میں مودی کے دامن پر ہمیشہ بے قصور اور معصوم افراد کے خون کے دھبے دکھائی دیں گے۔ خونی کھیل کا گجرات سے آغاز ہوا تھا جو آج تک بھی جاری ہے۔ چیف منسٹری کے دوران گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کو دنیا کبھی بھلا نہ پائے گی۔ گجرات کے فسادات کے بعد امریکہ نے مودی کے داخلہ پر پابندی عائد کرتے ہوئے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔ چیف منسٹری کے دور سے مودی کے اسرائیل سے تعلقات استوار ہوئے جو وزیراعظم بننے کے بعد مستحکم ہوگئے۔ 20 سالہ اقتدار کے کارناموں میں گجرات فسادات ، شریعت میں مداخلت ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ، مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کی سازش ، علماء ، قائدین اور دیگر مدارس کے خلاف کارروائیوں کے ذریعہ حوصلے پست کرنے کی کوشش، لو جہاد ، بیف اور دیگر عنوانات سے ہجومی تشدد جیسے کارنامہ سیاہ کو بھی شامل کیا جائے۔ کورونا وباء سے نمٹنے میں ناکامی ، لاک ڈاؤن کے دوران سڑکوں پر اموات ، آکسیجن کی کمی سے اموات اور گنگا میں بہتی نعشوں کو فراموش کیسے کیا جاسکتا ہے ۔ یو پی میں احتجاجی کسانوں کو گاڑی کے ذریعہ روندنے کے سفاکانہ واقعہ کو ملک کبھی بھول نہیں پائے گا لیکن مودی نے کسانوں کی ہلاکتوں پر افسوس تک نہیں جتایا۔ اپنے آپ کو پردھان سیوک کہلانے والے مودی 20 برسوں کے اقتدار میں ایسے 20 فیصلے نہیں بتاسکتے جن سے بلا لحاظ مذہب و ملت عوام کو فائدہ ہوا ہو۔ 20 برسوں میں کئے گئے وعدے اور ان کی تکمیل سے عوام کو واقف کرایا جائے۔ 20 سال کا تو پتہ نہیں لیکن 7 برسوں میں کئی ممالک کے سربراہوں کو مودی نے زوال سے دوچار کردیا۔ یہ کسی طاقت کے بل پر نہیں بلکہ گلے مل کر کیا گیا ۔ مودی جس سے بغلگیر ہوئے وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ تازہ متاثرین میں اشرف غنی ، ڈونالڈ ٹرمپ ، بنجامن نتن یاہو اور نواز شریف شامل ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بائیڈن نے مودی سے گلے ملنے سے پرہیز کیا۔
گاندھی اور آندھی کو روکا نہیں جاسکتا۔ جدوجہد آزادی میں گاندھی جی اور آزادی کے بعد گاندھی خاندان کے لئے یہ بات سچ ثابت ہوئی ۔ جس طرح سیاست میں عروج اور زوال لازمی حصہ ہے، اسی طرح ہر کسی کے لئے وقت بھی تبدیل ہوتا ہے۔ کوئی پارٹی یا قائد یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اقتدار ہمیشہ باقی رہے گا۔ جمہوریت کی خوبی یہی ہے کہ اقتدار تبدیل ہو اور عوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنی پسند کی حکومت کو منتخب کرتے ہیں۔ مرکز اور اترپردیش میں مودی اور یوگی خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے لگے ہیں۔ مرکز میں 7 برسوں کے اقتدار نے بی جے پی کو غرور اور تکبر میں مبتلا کردیا ہے ۔ حالانکہ کانگریس وہ پارٹی ہے جس نے ملک پر 50 برس حکمرانی کی۔ اترپردیش کے انتخابات سے عین قبل کسانوں کے احتجاج کو کچلنے کیلئے جو غیر انسانی سلوک کیا گیا ، اس نے کانگریس پارٹی کو عوام کے درمیان پہنچنے کا موقع فراہم کردیا ہے ۔ کانگریس کے موقف کو قومی سطح پر دوبارہ بحال کرنے کیلئے دن رات محنت کرنے والے بھائی بہن نے یوگی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی اور لاکھ رکاوٹوں کے باوجود وہ متاثرہ کسان خاندانوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کسانوں پر گاڑی چلانے والے اصل ملزم کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا لیکن ملاقات کیلئے جانے والی پرینکا گاندھی کو بغیر کسی مقدمہ کے 24 گھنٹے سے زائد تک غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ۔ پرینکا گاندھی جنہوں نے اترپردیش میں پارٹی کی انتخابی مہم کی کمان سنبھالی ہے، مہم کے آغاز سے قبل ہی کسانوں کے واقعہ نے کانگریس کی انتخابی مہم کا عملاً آغاز کردیا ہے۔ سیاست میں موقع اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور جب کسی قائد یا پارٹی کو موقع مل جائے تو پھر کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ اترپردیش میں سیاسی حالات راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے حق میں سازگار ہوچکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام یوگی حکومت کے ساتھ انتخابات میں کیا معاملہ کریں گے۔ علی احمد جلیلی نے کیا خوب کہا ہے ؎
کیا خبر تھی ائے امیر شہر تیرے دور میں
سانس لینا جرم جینا حادثہ ہوجائے گا