سید جلیل ازہر
آج کل سماج میں شادی بیاہ میں جو اسراف ہورہا ہے، اس پر کئی تنظیمیں اور دانشورانِ ملت اپنی جانب سے بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ پھر بھی تقاریب میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں اور رسومات پر روک نہیں لگ رہی ہے۔ انسانی ذہن میں یہی بات گھر کر گئی ہوگی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ شادی انسان کی زندگی کا ایک اہم اور حسین موڑ ہے۔ خاص کر لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کیلئے یہ سب سے اہم ہے۔ شادی بیاہ کے سلسلے میں آج جس انداز سے بیجا رسومات کو اہمیت دی جارہی ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسلام میں شادی کا آغاز نکاح حیسی مقدس رسم سے کیا جاتا ہے اور دیکھا جائے تو یہ نکاح مذہبی رسم ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک باقی کی رسمیں نمود و نمائش اور دکھاوا ہی ہیں جو پیسے اور وقت دونوں کی بربادی ہے۔ اسلام ہمیں اس خوشی کے موقع پر بھی سادگی کی تعلیم دیتا ہے اور سادگی اپنانے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ روپئے پیسے کا بیجا اور غیرضروری استعمال نہ ہو۔ زمانہ قدیم میں گھر کے بڑے لوگ چھوٹے بچوں کی موجودگی میں مرغی بھی ذبح نہیں کرتے تھے کیونکہ بچہ چاقو چھری کے عمل سے واقف نہیں ہوتا کہیں گہری نیند میں سو رہے ماں باپ اور کسی فرد پر یہ عمل نہ دہرا دے۔ آج بڑی شان و شوکت سے دعوتوں کی نمائش سے بھی نسل نو پر ان کے دماغوں پر یہ نقوش باعث تشویش ہیں۔ دوسروں کی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے نوجوان اپنے والدین کو بھی قرض کے دلدل میں ڈالتے ہوئے شادی بیاہ میں بیجا اسراف پر مجبور کررہے ہیں۔ جبکہ جو لوگ بھوک سے تڑپتے ہوئے کسی بے سہارا شادی خانوں کے اردگرد پھینکے ہوئے کھانے میں روٹی تلاش کرکے اپنا پیٹ بھر رہا ہے ، ایسے واقعات کو ہر شادی خانہ کے پاس ہر شخص دیکھ رہا ہے۔ اسلام تو ہمیں اپنے بچوں کو ان بچوں کے سامنے پیار کرنے سے بھی روکتا ہے جن کے ماں باپ اس دنیا میں نہیں رہے اور ہم بھوکوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جھوٹی شان کیلئے دعوتوں پر لاکھوں روپیہ لٹا رہے ہیں، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ بھوکا کچرے میں روٹی تلاش کررہا ہے، شکر ہے کہ موت سب کو آنی ہے، ورنہ امیر اس بات کا مذاق بنا لیتا کہ غریب تھا اس لئے مرگیا۔
سال بھر چھپاتا تھا، وہ غریب اپنی بھوک کو
آج وہ بھی فخر سے کہے گا کہ میں روزے سے ہوں
ایسے حالات دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ کوئی اتنا امیر نہیں ہوتا کہ اپنا گذرا ہوا کل خرید سکے اور کوئی اتنا غریب بھی نہیں ہوتا کہ اپنا آنے والا کل بدل سکے۔ یاد رکھو! اللہ کی رحمت کب کس غریب کی دہلیز پر دستک دے دے۔
بہت سنبھل کے غریبوں سے گفتگو کرنا
یہ لوگ سوکھی ندی سے پانی مانگ لیتے ہیں
رزق کی قدر کرو اور غریبوں کی فکر کرو، یہی انسانیت ہے۔ رزق کے تعلق سے ایک حدیث بھی ہے جو شاید ہمارے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو روٹی کا ٹکرا گرا ہوا دیکھا۔ آپؐ نے اسے اٹھاکر صاف فرمایا اور کھالیا پھر ارشاد فرمایا: ’’ائے عائشہؓ! عزت دار چیز کی عزت کرو، جب اللہ کسی قوم کا رزق چھین لیتا ہے تو واپس نہیں کرتا‘‘۔ آج کئی گھرانوں میں بچے یا بزرگ ایسے حال میں جی رہے ہیںکہ ’’مل گئی تو روزی ، نہ ملی تو روزہ‘‘ شادی خانوں کے آس پاس کئی غریبوں کے مکانات کو آج میں جاکر دیکھو، وہ قریب منتظر رہتا ہے کہ کب تقریب ختم ہوجائے اور ہمیں کچھ مل جائے، ہم ہے کہ اپنی جھوٹی شان میں مست رہتے ہیں۔ اس کے انتظار کرنے سے قبل اگر اس کو بھی کچھ کھانے کیلئے دے دیں تو کتنا بہتر رہتا۔ آخرت بھی سنور جاتی، غریب کی بھوک بھی مٹ جاتی۔ یقینا آج شہر ہو یا اضلاع بہت سی تنظیمیں اس مسئلہ پر کافی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے کہ غیرضروری اسراف کو روکا جائے تاہم اس مسئلہ کو ہر شخص اگر سنجیدگی سے لے تو کوئی غریب بھوکا نہیں رہے گا کیونکہ بلندی کس کام کی جس پر انسان چڑھے اور انسانیت سے گرجائے۔ یاد رکھو! اگر صاحبِ استطاعت ہو تم زمین پر رہنے والوں کی مدد کرو، آسمان والا تمہاری مدد کرے گا، کیونکہ زندگی وہ واحد پودا ہے جس کا بیج زمین کے اوپر اور پھل زمین کے نیچے ملتا ہے۔ انسانیت کی فلاح اور اس کی خدمت ایک مسلمان کی مقصد حیات کا حصہ ہونا چاہئے لہذا جہاں کہیں انسانیت کی آبرو خطرہ میں ہو، مسلمان اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنی بساط بھر کوشش کے ذریعہ انسانی اقدار کی حفاظت کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ شادی بیاہ میں بیجا اسراف کو روکنے بڑے پیمانے پر علمائے دین اور دانشوران ملت کی تنظیمیں متحرک ہیں لیکن اس کام کو اور بھی وسعت دینے کیلئے نوجوانوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اسلام اپنی سربلندی کیلئے کسی قوم یا نسل کا محتاج بھی نہیں رہا۔ مذاہب یا تہذیبوں کا کوئی تصادم کہیں بھی نہیں ہے۔ اللہ نے تمہیں دولت سے نوازا ہے تو اس کا بیجا استعمال نہ کرو۔ اس عنوان پر قلم اُٹھانے کی جسارت اس لیا کررہا ہوں کہ کئی دعوتوں میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جس کو قلمبند کرتے ہوئے قلم تھر تھر کانپتے لگتا ہے۔ تحریر سے زیادہ کچھ فرضی تصاویر انسان کے دل پر دستک دیتے ہوئے اس کے احساس کو جگانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔