سب کا بھارت یا یکطرفہ ہندوستان

   

روش کمار
جاریہ سال جنوری میں اپوروا وشواناتھ اور اسد رحمن کی ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کانپور میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے دوران جو تشدد پھوٹ پڑا اس تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سرکاری اور خانگی املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور اس الزام کی وجہ سے ان تمام کو نوٹس بھیجی جاتی ہے کہ آپ تمام پر جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ تمام نوٹسیں ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھیجی گئیں اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ان میں اکثر غریب لوگ تھے۔
مابنور چودھری اسکراپ کا کام کرتے ہیں۔ فروری 2020ء میں یوپی حکومت نے ان کی دکان کو مہربند کردیا تب سے ان کی کمائی بھی بند ہوگئی۔ دراصل مابنور چودھری پر شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ڈسمبر 2019ء میں ہوئے تشدد میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان پر 21 لاکھ روپئے جرمانہ عائد کیا گیا اور اسی جرمانے کی وصولی کا نوٹس دیا گیا۔ اسی طرح تھیٹر آرٹسٹ دیپک کو بھی 60 لاکھ روپئے بطور جرمانہ ادا کرنے کی نوٹس دی گئی لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اترپردیش میں اس قسم کی 274 نوٹسیں منسوخ کی گئیں کیونکہ عدالت نے انہیں غیرقانونی سمجھا۔ یہاں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت جن فیصلوں کو بزور طاقت صحیح کہتی ہے، وہ فیصلے بعض اوقات عدالت اور قانون کی نظر میں غیرقانونی ہوتے ہیں۔ آپ کو بتادوں کہ سپریم کورٹ نے سرکاری اور خانگی املاک کو نقصان پہنچانے پر جرمانہ کی نوٹس بھیجنے کا مکمل طریقہ کار طئے کیا ہے۔ اس کیلئے ایک ٹریبیونل تشکیل پاتا ہے جہاں جرم ثابت ہوتا ہے پھر نوٹس دی جاتی ہے۔ہم یہ باتیں ریاست مدھیہ پردیش کے علاقہ کھرگون میں منہدم کئے گئے مکانات و دکانات کے حوالے سے کررہے ہیں۔ اگر آپ اس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ہونے والے مباحث اور تبصروں کے ساتھ ساتھ میڈیا رپورٹس کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تشدد کے بہانے اکثر ایک خصوصی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کانپور میں ایسے 21 افراد کو نوٹس بھیجی گئیں جو یومیہ اجرت یا مزدوری پر کام کرتے ہیں، یہ لوگ اپنا موقف پیش کرنے الہ آباد ہائیکورٹ نہیں جاسکے لیکن ایک فرد نے انتظامیہ کو 13,476 روپئے جرمانہ ادا کیا تھا۔ جب پرویز عارف کی درخواست سپریم کورٹ میں آئی تو عدالت عظمی کے تبصرے میں واضح تھاکہ یکطرفہ فیصلہ کیسے ہوا؟ یہاں تک کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر جرمانے مقرر کرنے کیلئے ابھی ایک پورا عمل کیا گیا ہے، وہ عمل سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ عدالت عظمی نے خود کہا ہے کہ اس طریقہ کار پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سوریہ کانت نے دریافت کیا کہ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ عدالتی عہدہ داران مقدمات کی سماعت کریں گے تو پھر ایڈمنسٹریٹیو آفیسر اے ڈی ایم نے کارروائی کیسے کی؟
آخر عدالت عظمیٰ کی طرف سے کئی رہنمایانہ ہدایات یا خطوط کو نظرانداز کرنے کے پیچھے کیا مقصد کار فرما ہوگا؟ کیا انتظامیہ کی جانب سے اتنی فاش غلطی ہے۔ سپریم کورٹ نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اس طرح سے جاری کی گئیں نوٹسوں کو ایک ہی جھٹکہ میں ختم کردیا جائے اور جرمانہ کی رقم لوگوں کے گھر جاکر واپس کی جائے۔ اس مقدمہ سے متعلق ایک اور رپورٹ یا خبر ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی اشاعت مورخہ 16 مارچ 2022ء میں عمل میں آئی جس میں بتایا گیا کہ کانپور انتظامیہ نے 274 نوٹسیں واپس لے لی ہیں اور جو جرمانہ جمع کیا گیا، اسے واپس کردیا ہے۔ اب نئے بنائے گئے قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے۔
تب سپریم کورٹ نے حکومت اترپردیش سے کہا تھا کہ ان معاملات میں آپ ہی شکایت کنندہ ہیں، آپ جج ہیں اور آپ ہی جائیداد کو ضبط کرنے والے ہیں۔ جسٹس چندر چوڑ نے یوپی حکومت سے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے حکم کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اب اس معاملے میں ایک بار پھر نئے قواعد کے تحت کارروائی کی جارہی ہے، لیکن جس طرح سے کارروائی ہوئی ہے، اگر عدالت تک نہ پہنچتی تو کتنی ناانصافی ہوتی ، مدھیہ پردیش میں جس طرح شک کی بنیاد پر مکانات اور دکانات منہدم کئے گئے ، اب کہا جارہا ہے کہ وہاں غیرقانونی تعمیرات کی گئی تھیں، اس لئے انہیں گرایا گیا لیکن کیا اس کی وجہ یہی ہے۔ اندور کے ڈیویژنل کمشنر پون شرما کا بیان موقر انگریزی روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایسا اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ تمام نہیں بلکہ کچھ ملزمین فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث تھے جو ان جائیدادوں کے مالک بھی ہیں۔ ریوینیو ریکارڈ کے مطابق سرکاری اراضیات پر ناجائز قبضے کئے گئے۔
کھرگون میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بھڑکانے میں کس کا ہاتھ تھا۔ کس نے مکانات کو جلایا اور کیا فسادیوں کو سزا دینے کی خاطر مکانات اور دکانات منہدم کئے گئے؟ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتظامیہ نے اتنی جلدی سب کی شناخت کرلی۔ ان کا جرم ثابت ہوگیا؟ کیا فساد میں دوسری طرف سے کوئی نہیں تھا؟ انتظامیہ کے پاس اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جن افراد نے غیرمجاز قبضے کئے ہیں یا تجازات کئے ہیں، ان کے گھر اور دُکانات منہدم کی گئیں۔ آپ نے دیکھا کہ نفرت کی اس سیاست نے دو برادریوں کو کس طرح ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کردیا ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، اس جھگڑے میں صرف عام لوگ نشانہ پر ہیں اور خاص لوگ سیاست کررہے ہیں۔
جھارکھنڈ کے کوڈرما کا ایک ویڈیو منظر عام پر آیا ہے جس میں نوجوان زعفرانی پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو گالیاں دے رہے ہیں، وہاں پولیس کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہورہا ہے، اس ویڈیو کی تحقیقات ہونی چاہئے کیا وہ لوگ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بھی گالی دے رہے ہیں۔ وہاں مجسٹریٹ موجود ہیں، پولیس بھی کثیر تعداد میں ہے لیکن وہ نعروں کی شکل میں گالیاں دے رہے ہیں۔ آج کل نوجوان کھلم کھلا اس طرح کی گالیاں دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں 8 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس طرح گالی گلوج کرنے کی ان میں ہمت آئی کہاں سے سوچ سکتے ہیں تو سوچیں ورنہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہم نے گاؤں کھشک اور گاؤ رکھشک کہہ کر سماج میں مذہبی پولیس بنا دی ہے۔ مجرم مذہب کی آڑ میں کسی کو بھی قتل کررہے ہیں، گائے یا جرم کو مذہب یا گائے کے نام پر پہچانا جارہا ہے۔ دہلی میں گاؤکشی کے شبہ میں کچھ گائے کے محافظ آئے اور گوشالہ کے نگران راجہ رام کو اتنا مارا کہ وہ مرگیا۔ کیا اس میں پولیس کا کوئی رول نہیں تھا تو صرف گائے کے محافظ کو ہی پولیس کی پہچان ملنی چاہئے کہ پولیس آئی ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر راجہ رام کا قتل کیا گیا۔ اس پر گائے کو مارنے کا الزام تھا جس کی وضاحت کیلئے راجہ رام زندہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب قانون کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کون قانون کی حکمرانی کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں کئی سطحوں پر لڑائیاں جاری ہیں۔ اداروں کو لے کر مرکز اور ریاستوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی ہے۔
ممتا بنرجی، کے سی آر اور اب شرد پوار یہ الزام لگا رہے ہیں کہ مرکزی ایجنسیوں کو اپوزیشن کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ مرکز اور ریاست کے درمیان تعلقات کا بھی نئے سرے سے تعین کیا جارہا ہے۔ جب ملک کی جامعات میں مشترکہ داخلہ ٹسٹ کا نظام متعارف کرلیا گیا تو اس کے خلاف ٹاملناڈو کی قانون ساز اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی ہے۔ ٹاملناڈو بی جے پی کے صدر کہہ رہے ہیں کہ ہندی زبان کو زبردستی تھوپنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہیں کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ تحقیقاتی اداروں پر یکطرفہ کارروائی کرنے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ کیا یہ سب کا ہندوستان ہے یا یکطرفہ ہندوستان ہے؟
شہروں میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہے۔ کیا اب گرمی کم ہے جو ہمارے سیاست داں ،مذہبی مسائل کا سہارا لے کر فضاء میں گرمی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس گرمی میں سوزش والی چیزوں سے دور رہیں تو بہتر ہوگا۔ آسمان کو آگ برسانے دو، دلشاد سیٹھ ، روی دتہ مشرا نے اخبار ’’لائیومنٹ‘‘ میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ کپڑا اتنا مہنگا کبھی نہیں ہوا۔ ساڑھے آٹھ سال میں کپڑا مہنگا ترین فروخت ہورہا ہے۔ جوتوں اور چیلوں کی قیمتوں میں بھی آٹھ نو سال میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ 19 ماہ میں اناج اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ ماضی میں کبھی اتنا مہنگا نہیں تھا۔ اتنی مہنگائی دیکھ کر کسی کی پیشانی گرم ہوجاتی ہے۔ اس پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کی بجائے مذہبی نعروں سے ماحول گرم کیا جارہا ہے۔ ایک اخبار نے بتایا کہ اب ایک کلو کیمو کی بجائے 5 کلو انگور خرید سکتے ہیں۔ اس طرح تو ہم نے مہنگائی نہیں دیکھی تھی۔ متوسط طبقہ مہنگائی سے پریشان نہیں ہوتا۔ یعنی وہ سیاسی طور پر پریشان نہیں ہوتا، وہ معاشی پریشانی کو ذاتی یا شخصی مسئلہ سمجھتا ہے۔ اب تک یہ طبقہ ٹیکسوں کی شکل میں ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کررہا تھا لیکن اب مہنگے دام ادا کرکے اپنا حصہ ادا کررہا ہے۔ متوسط طبقہ کی اس قربانی کی یاد میں میوزیم بنایا جائے۔