’سب کا وشواس‘ ۔ نفرت کے نئے واقعات

   

رام پنیانی
سال 2014ء کی کامیابی کے بعد وزیراعظم ہند مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ (سب کو ساتھ لے کر چلنا، سب کیلئے ترقی) کے نعرے پر عمل درآمد کریں گے۔ اس نعرے کے ساتھ اب انھوں نے ’سب کا وشواس‘ (ہر کسی کا بھروسہ) جوڑ دیا ہے۔ کئی ممتاز مصنفین اور جہدکار بالخصوص مسلم برادری والے خود کو پھر سے اطمینان دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنے وعدے کو وفا کریں گے اور مذہبی اقلیتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو نہیں دھمکائیں گے اور جبر نہیں کریں گے۔ یہ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے کہ پُرامید رہیں اور اپنی امید کو زندہ رکھیں، لیکن ’سب کا وکاس‘ کا ماضی قریب کا تلخ تجربہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہندو قوم پرستی کا نظریہ جس سے مودی کا تعلق ہے، وہ بھی اس طرح کے وعدے کے تعلق سے شبہات پیدا کرتا ہے۔ ہندو راشٹر کا مقصد، ہندو حقوق کا ایجنڈہ جس پر مودی عمل پیرا ہیں، سب کا وکاس والے پُرامن ہندوستان کے امکانات کو مزید خراب کرتا ہے۔
مودی حکومت کے گزشتہ پانچ سال کے دوران جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ اقلیتوں میں عدم سلامتی کے احساس میں اضافہ ہے۔ رام مندر، گھر واپسی اور لوو جہاد جیسی تفرقہ پسند مہمات کی کم تھیں کہ اس میں مقدس گائے اور بیف کھانے کا مسئلہ جوڑ دیا گیا جس نے شناخت سے متعلق جنون کو آسمان پر پہنچا دیا۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی لنچنگ (ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے ہلاکت) اور دلتوں کی پٹائی کے واقعات رونما ہونے لگے۔ خاص طور پر ان دو برادریوں پر ڈھائے گئے مظالم خوفناک ہیں۔ حسب ضرورت استعمال کئے جانے والے عناصر جو ہندو قوم پرستانہ سیاست کی ’تقسیم افرادی قوت‘ کا کلیدی حصہ ہیں، وہ اس مدت کے دوران زیادہ جارح بن گئے۔ اقتدار والوں نے ان جارحانہ عناصر کی حرکتوں پر چشم پوشی اختیار کرلی بلکہ ان ظالمانہ حرکتوں کی تعریف کے اشارے بھی دیتے ہوئے زعفرانی لباس میں ملبوس ہجوموں نے ’جئے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ ایسے عناصر کو اشارے دیئے گئے کہ جب تک یہ حکومت کا اقتدار ہے اس طرح کی حرکتیں نیا معمول ہیں۔ مرکزی وزیر مہیش شرما کی مثال جب انھوں نے لنچنگ کے ملزم نعش کو ترنگا میں لپیٹا اور ایک دیگر وزیر جینت سنہا کا ضمانت پانے والے لنچنگ ملزمین کو تہنیت پیش کرنا اُن لوگوں کیلئے منظوری کے مستقل سرٹفکیٹ ہیں جو اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی حرکتوں نے مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کیا اور انھیں آخری حد تک حاشیہ پر پہنچا دیا۔ حتیٰ کہ عیسائیوں کو بھی پریشانیاں اٹھانی پڑیں جیسا کہ اُن کے دعائیہ اجتماعات اور کارل گانے والی ٹیموں کو ’تبدیلی ٔ مذہب کی کوششوں‘ کے نام پر حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے اس پس منظر کے ساتھ مسٹر مودی اب بی جے پی کیلئے زیادہ ووٹ اور زیادہ نشستوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار پر آئے ہیں۔ اس زبردست خط اعتماد (مینڈیٹ) کے اسباب پر مباحث ہورہے ہیں۔ اپوزیشن کی متحد ہونے میں ناکامی، پلوامہ حملہ کو بنیاد بناکر غیرمعمولی قوم پرستی کا پیدا کردہ ماحول، ای وی ایم کا رول اور جانبدارانہ الیکشن کمیشن جیسے اسباب الجھن پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ بہرحال مودی۔ بی جے پی فتح کے گزشتہ چند یوم کے دوران سماج میں دیکھنے میں آرہا ہے کہ یہ تشویشناک تبدیلی ہے۔اس تھوڑی سی مدت کے دوران ہم نے حسب ذیل تکلیف واقعات دیکھے ہیں:
بیگوسرائے، بہار میں مسلم نوجوان محمد قاسم کو گولی ماری گئی (26 مئی)۔ ایک روز قبل مسلم نوجوان سے اُس کا نام پوچھا گیا تھا۔چار نامعلوم نوجوانوں نے روایتی ٹوپی پہنے ایک مسلم نوجوان کو زدوکوب کیا (26 مئی)۔ایک آدیواسی پروفیسر کو ایک فیس بک پوسٹ پر گرفتار کرلیا گیا (25 مئی)۔ اس پوسٹ میں پروفیسر نے بیف کھانے کے حق کا ذکر کیا تھا۔رائے پور، چھتیس گڑھ میں خودساختہ گاؤ رکشکوں کے گروپ نے ایک ڈیری میں گھس کر وہاں موجود لوگوں کو گاؤکشی اور بیف بیچنے کا مورد الزام ٹھہرایا (26 مئی)۔ گروپ نے دکان میں توڑ پھوڑ مچائی اور وہاں کے لوگوں کو زدوکوب کیا۔گجرات میں وڈوڈرا کے گاؤں مہوواڈ میں ایک دلت جوڑے کے مکان پر اونچی ذات کے 200-300 کے ہجوم نے مبینہ طور پر حملہ کیا۔ دلت جوڑے کا جرم یہ تھا کہ شوہر نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا تھا کہ حکومت گاؤں کی مندر کو دلت شادی تقاریب کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔’جنتا کا رپورٹر‘ کے مطابق آسام میں ایک مسلم شخص اشرف علی جس کی عمر زائد از 90 سال تھی، وہ اس خوف سے فوت ہوگیا کہ اسے بیرونی شہری قرار دیئے جانے کا امکان ہے اور اسے حراستی مرکز کو بھیجا جائے گا۔ اس شخص کی نعش ایک اسکول کے احاطے میں پائی گئی جو گوہائی سے 70 کیلومیٹر مغرب میں بوکو کے سنتولی میں واقع اس کی جھونپڑی سے قریب ہے۔
اتنی تھوڑی سی مدت میں کئی واقعات سے اشارہ ملتا ہے کہ مودی کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے باعث ماحول کس طرح بگاڑا جارہا ہے۔ ایک طرف نام نہاد معمولی عناصر پہلے سے کہیں زیادہ جرأت مند ہوگئے ہیں اور یہ اُن کے عدم روادار برتاؤ کا اشارہ ہے۔ دوسری طرف عوام ان پالیسیوں کے اثرات جانتے ہیں جن پر مودی گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عمل پیرا رہے اور اب ہوسکتا ہے مزید جوش کے ساتھ عمل کریں گے۔ صدر بی جے پی نے مسلم پناہ گزینوں کو دیمک قرار دیا ہے۔ یہ ایک طرح سے عکاس ہے کہ برسراقتدار لوگوں کے پاس مسلمانوں کی کیا وقعت ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ بی جے پی ٹکٹ پر منتخب 303 ایم پیز میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی لگ بھگ صفر کے مساوی ہے۔ لوک سبھا میں مسلمانوں کی مجموعی نمائندگی گھٹ گئی اور سابقہ رجحان برقرار ہے۔ مسلم کمیونٹی نے ماضی میں کئی طوفانوں کا سامنا کیا ہے۔ اس کی عکاسی رنگناتھ مشرا اور سچر کمیشن رپورٹس سے ہوتی ہے۔اگرچہ کانگریس اور دیگر نیم سکیولر پارٹیوں کو مسلم خوشامدی کا مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے، لیکن مسلم کمیونٹی کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات گزرے وقت میں ابتر ہی ہوئے ہیں۔ مسلم برادری کے کئی مخلص قائدین کو جمہوری عمل میں بالکلیہ نظرانداز کردیئے جانے کا احساس ہورہا ہے، جس کا وقار ویسے بھی گزشتہ تقریباً ایک دہے سے کمتر کیا جارہا ہے۔
تشدد کے واقعات پیش آنے کی کلیدی وجہ ہندو قوم پرستانہ سیاست ’ہندوتوا‘ کا خوفناک اُبھراؤ ہے۔ قبل ازیں آر ایس ایس نے مختلف چھوٹی بڑی تنظیموں کو اُبھارا ، جو اجتماعی طور پر سنگھ پریوار کہلاتے ہیں۔ اب اقتدار کی وجہ سے بی جے پی مرکز میں اکثریت میں ہے، آر ایس ایس شاکھاؤں کی بڑے پیمانے پر توسیع ہوئی ہے، جو اس آرگنائزیشن کے مختلف یونٹس کو مزید تقویت پہنچا رہی ہیں۔ بہرحال اقلیتوں کی سکیورٹی جمہوریت کی طاقت کی عکاس ہے۔ اس اعتبار سے بھی ہمارے ملک میں جمہوری اقدار کا اشاریہ بھی فکرمندی کا پہلو ہے۔
ram.puniyani@gmail.cm