سب کا وِشواس جیتنا کتنا آسان‘ کتنا مشکل؟

   

پی چدمبرم

جو خط ِ اعتماد مسٹر نریندر مودی کو حاصل ہوا وہ کوئی انکار نہیں کہ بہت بڑا ہے۔ بے شک، ماضی میں ایسے مواقع رہے ہیں جب کسی سیاسی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن میں 303 سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر 1980ء میں اندرا گاندھی کو 353 اور 1984ء میں راجیو گاندھی کو 415 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ لیکن حالات مختلف تھے: اندرا گاندھی نے غیرمقبول مخلوط حکومت کے خلاف بہادری سے جدوجہد کی تھی، وہ قید کے بشمول کئی قسم کی ہراسانی کا شکار بنائی گئیں، اور لگ بھگ تن تنہا محنت کرتے ہوئے وہی عوام کی حمایت دوبارہ حاصل کی جنھوں نے اُن کی پارٹی اور انھیں (رائے بریلی میں) شکست دی تھی۔ راجیو گاندھی کے معاملے میں وہ ہمدردی کی لہر سے فائدے میں رہے، جو وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل سے پیدا ہوئی تھی۔

نہ صرف جیتی گئی نشستوں کی تعداد (303) بلکہ بی جے پی کی کامیابی کی وسعت اور پیمائش حیران کن ہیں۔ بی جے پی صرف تین ریاستوں کیرالا، ٹاملناڈو اور آندھرا پردیش میں کھاتہ نہیں کھول پائی۔ کامیابی کا فرق ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے، دو پارٹیوں کے درمیان راست مقابلے میں تو روایتی اعتبار سے بہت زیادہ ہے (جیسا کہ گجرات، راجستھان، ہریانہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، ہماچل پردیش، اترکھن اور آسام میں دیکھنے میں آیا ہے)۔ یوں تو کوئی معتبر اعداد و شمار دستیاب نہیں، لیکن پولس اور سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ توقع کے مطابق اونچی ذاتوں نے ہندی بولنے اور ہندی سمجھنے والی ریاستوں میں بی جے پی کے حق میں بڑی تعداد میں ووٹ دیئے۔ دیگر پسماندہ طبقات اور تعجب ہے کہ دلتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے قابل لحاظ تناسب نے بھی ایسا ہی کیا۔ اُن کی محرکات بھلے ہی مختلف رہی ہوں، لیکن حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنے ووٹ بی جے پی کو دیئے۔

میرے خیال میں مسٹر نریندر مودی خوش تو ہیں مگر مطمئن نہیں۔ کچھ تو ہے جو انھوں نے تاڑ لیا، اور شاید اُن کی پارٹی کے دیگر قائدین اسے سمجھنے میں ناکام ہوئے ہیں: یہ کہ دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور غریب تر افراد کے ووٹ حاصل کرنا کافی نہیں، بلکہ اُن کا اعتماد جیتنا ضروری ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انھیں اپنی پہلی میعاد کے ختم پر اُن کا اعتماد حاصل نہیں ہوا اور اس لئے انھوں نے اپنے نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ میں ’سب کا وشواس‘ کا اضافہ کیا ہے۔ یہ عمدہ تبدیلی ہے لیکن یہ مشکلات سے بھرپور ہے۔ نمایاں رکاوٹوں کے نام ہیں… مسٹر گری راج سنگھ، سادھوی نرنجن جیوتی اور مسٹر سنجیو بلیان۔ دیگر بھی ہیں جو منتخب ہوئے لیکن نظرانداز کردیئے گئے یا منتخب ہوئے اور (حکومتی ذمہ داری پانے کے) منتظر ہیں… مسٹر مہیش شرما، مسٹر اننت کمار ہیگڈے، مسٹر ساکشی مہاراج، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کئی دیگر غیرمعروف نام ہیں۔ مسٹر گری راج جو کابینی وزیر بنائے گئے، پہلے ہی دو حلیف پارٹی قائدین کی افطار پارٹی میں شرکت کے بارے میں غیرضروری ریمارک کرچکے ہیں۔ انھیں صدر بی جے پی سے سرزنش ملی لیکن انھوں نے اظہار تاسف نہیں کیا ہے۔ مسٹر مہاراج اپنے انتخاب کے بعد ایک قیدی (وہ ایم ایل اے جو 2017ء میں قوم کو دہلا دینے والے اُناؤ کے ریپ کیس کا ملزم ہے) سے ملاقات کیلئے گئے تاکہ اپنی کامیابی کیلئے اُس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اُن کی ابھی تک سرزنش نہیں ہوئی ہے۔ بچپن یا کم عمری سے پختہ ہوجانے والے تعصب و تنگ نظری سے چھٹکارہ پانا آسان نہیں ہے۔ یہ کام اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب آر ایس ایس اور بی جے پی کے سینئر قائدین وقفے وقفے سے ایسے تعصب کا اظہار کرتے ہوں (عید کیلئے برقی، دیوالی کیلئے برقی نہیں، ایسا حلقہ انتخاب جہاں اقلیت کو اکثریت حاصل ہے۔ اس سے بھی مدد نہیں ملتی جب دلتوں اور مسلمانوں کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت (لنچنگ) رکتی نہیں اور کم از کم ایک کیس ہر ہفتہ درج ہوتا ہے۔ تاثر کو بدلنے کی کوشش میں بھی مدد نہیں ملتی جب بی جے پی کے پاس اپنے 303 منتخب لوک سبھا ارکان میں مسلم کمیونٹی سے صرف ایک ایم پی ہے۔

ایک اور ٹھوس مسئلہ ہے۔ بی جے پی ان طبقات کا اعتماد اسی صورت میں جیت سکتی ہے جب دو شرائط پورے کئے جائیں۔ پہلی شرط ہے کہ کوئی بھی خوف میں نہیں جینا چاہئے۔ دوسری شرط ہے کہ اُن کا معاشی درجہ بتدریج بہتر ہونا چاہئے۔ آج کے حالات میں کوئی بھی شرط پوری نہیں ہے، یہ دیکھنا دلچسپ رہے گا کہ کس طرح حکومت ان دو شرائط کی تکمیل کیلئے آگے بڑھتی ہے۔ عوام کے بعض طبقات میں خوف کو دور کرنے کیلئے جرأت مندانہ اقدامات درکار ہیں۔ جب کبھی کوئی قابل گرفت حرکت ہو خاطی کو ضرور سزا دینا چاہئے۔ کیا بی جے پی انھیں سزا دے گی جو بے خوف ہو کر غیرقانونی حرکت کرتے ہیں اور خوف پھیلاتے ہیں؟ یہ بڑا کٹھن کام ہے، موجودہ حالات میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ بی جے پی کی قیادت ایسے عناصر پر قابو پائے گی جو قابل مواخذہ برتاؤ میں ملوث ہوتے ہیں۔
دوسری شرط معقول طور پر پوری طرح حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ بددِل طبقات کا معاشی موقف اسی وقت بہتر ہونا شروع ہوگا جب انھیں مزید نوکریاں حاصل ہوں گی، مزید جاب سکیورٹی ملے گی، بہتر آمدنی حاصل ہوگی، اور سرکاری اشیاء اور خدمات تک بہتر رسائی ملے گی۔ نوکریاں اور آمدنی اونچی اور واجبی معاشی ترقی سے فطری طور پر مربوط ہیں اور سال 2018-19ء کے مایوس کن اختتام کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں اونچی یا واجبی ترقی عنقریب ممکن نہیں ہے۔
دلتوں، مسلمانوں ، عیسائیوں اور خط غربت سے نیچے والوں کے گوشوں نے مجھے شبہ ہے کہ بی جے پی کے امیدوار کو اس لئے ووٹ دیا کیونکہ کوئی دیگر امیدوار مقابلہ جیتنے کے قابل نظر نہیں آیا اور بلاشبہ کوئی دیگر امیدوار کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیا ہوگا۔ یہ ہوشیاری سے ڈالا گیا ووٹ ہے، یہ اعتماد کا ووٹ نہیں ہے۔ بی جے پی کو اُن کا اعتماد جیتنے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ یہ عجیب صورتحال ہے۔ بی جے پی کی نئی حکومت کی تشکیل پُرجوش حامیوں (جن کی نظروں میں مسٹر مودی کچھ غلط نہیں کرسکتے) اور بددِل طبقات (جن کی نظروں میں مسٹر مودی نے ابھی تک کچھ بھی اچھا نہیں کیا ہے ) کے ووٹوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ رہے گا کہ کس طرح تیزفہم مسٹر مودی ان نامعلوم راہوں سے گزر پاتے ہیں۔