سب کی منزل ایک، پھر بھی جھگڑے

   

رام پنیانی

ہندوستان میں گزشتہ چند دہوں کے دوران فرقہ پرستی میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا، خاص طور پر فرقہ وارانہ سیاست کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا۔ اسی طرح کی فرقہ وارانہ سیاست کی پاکستان میں ایک طویل عرصہ سے اجارہ داری ہے۔ یہ سیاست دراصل زیادہ تر تاریخ سے حاصل کی گئی بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں یا دوسری کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے تاریخ کو ایک بڑے آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں نفرت کے اس آلہ کا نشانہ ہندوہیں اور ہندوستان میں اس کا نشانہ مسلمان ہیں۔ اگر ہم دونوں ملکوں میں فرقہ پرستی اور نفرت کا زہر پھیلانے کیلئے تاریخ کے استعمال کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس زہر کو پھیلانے لوگوں کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کرنے کیلئے قرون وسطیٰ کے بادشاہوں کے مذہب کے حوالے دیئے جاتے ہیں اور اپنی نسلی و مذہبی سیاست کو چمکانے کیلئے جو واقعات موزوں ہوتے ہیں ، ان موزوں واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
اگر آج دیکھا جائے تو ملک اکثریتی فرقہ پرستانہ حملوں کی زد میں ہے اور اکثریتی فرقہ پرست جس طرح کا پروپگنڈہ کررہے ہیں۔ وہ انتہائی خطرناک ہے۔ جواب میں معمولی مسلم فرقہ پرست طاقتوں کا بھی اپنا ایک جداگانہ موقف ہے۔ مثال کے طور پر اترپردیش میں کل ہند مجلس اتحادالمسلمین کے شوکت علی کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس کا ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ مسلمانوں نے اس ملک پر 832 سال حکومت کی۔ ہندو ، مسلم بادشاہوں کے سامنے ہاتھ باندھے جھکے رہتے تھے۔ مسلمانوں نے جودھا بائی جیسی ہندو خاتون کو ملکہ ہند کا تاج پہنایا۔ ان کا یہ بیان عجیب و غریب ہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم فرقہ پرستوں کی سوچ و فکر یہ ہے کہ مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں پر حکمرانی کی اور ہندو خواتین (جودھا بائی) کو اپنی بیگم بنایا۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں طرف کی فرقہ پرست طاقتیں جس انداز میں پروپگنڈہ کرتی ہیں، وہ دراصل فرقہ وارانہ تاریخ نویسی کا ایک حصہ ہوتا ہے اور تاریخ کو مسخ کرکے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا طریقہ ہندوستان میں انگریزوں نے متعارف کروایا تاکہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی اپنی پالیسی کو آگے بڑھایا جائے۔ ہندوستانیوں میں نفرت کی تخم ریزی کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا جائے۔ ہندوستان کے قدرتی وسائل کو لوٹا جائے۔ انگریزوں کو یہ اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ ہندو اور مسلمان ہندوستان کے دو بڑے اور اہم مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کو یاد دلادوں کہ جیمس ملس نے 1818ء میں ’’ہندوستان کی تاریخ‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں قدیم ہندو اور قرون وسطیٰ کا مسلم دور اور جدید و معاصر دور کے طور پر انگریزوں کے دور کا احاطہ کیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ Mills نے ہندو اور مسلم حکمرانوں کی ان کے مذاہب کے حوالے سے شناخت کی یا نشاندہی کی جبکہ برطانوی دور حکمرانی کیلئے لفظ ’’عیسائی‘‘ کا استعمال نہیں کیا۔ تاریخ نویسی کا جہاں تک تعلق ہے، ہندوستان کی تاریخ سے متعلق مزید 8 جلدوں میں ان کا احاطہ کیا گیا۔ الیٹ اینڈ ڈاسن نامی مورخین نے اسے تیار کیا۔ یہ کتاب دنیا کے دیگر ملکوں کی ان کتابوں سے متاثر ہوکر لکھی گئی جن میں ماضی کے بادشاہوں اور حکمرانوں کی بہت زیادہ تعریف و ستائش کی گئی تھی اور انہیں عظیم حکمرانوں سے تعبیر کیا گیا اور ان کی عظمتوں کی وجہ اپنے مذہب کے تئیں ان کی خدمات بتائی گئی۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو انگریز مورخین نے یہی بتانے کی کوشش کی کہ بادشاہوں اور حکمرانوں نے اپنی حکمرانی کا اصل مقصد مذہب کا فروغ بنالیا تھا اور مذہب کو بادشاہوں کی حکمرانی کا مرکز بنایا۔ مثال کے طور پر متعصب مورخین یا پھر شرپسند مورخین نے جان بوجھ کر اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی کہ مسلم حکمرانوں نے مندروں کو تباہ و برباد کیا جبکہ ہندوستان میں ایسے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں جہاں ہندو راجاؤں نے نہ صرف اپنی ہندو رعایا کا قتل کیا بلکہ اپنے ہاتھوں ہندو مندروں کو مسمار کیا لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ مورخین نے اس حقیقت پر پردہ ڈال دیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور تہذیبی تنوع سے پُر اس کی تاریخ کو مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جو ہمیں مہاتما گاندھی (ہند سواراج) اور جواہر لال نہرو (ڈسکور آف انڈیا)کی تحریروں میں ملتی ہے۔ اس میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے اتحاد سے متعلق پہلوؤں ان کے سماجی و سیاسی باہمی عمل پر توجہ مرکوز کی گئی۔ گاندھی نے ہند سواراج میں لکھا ’’ہندوؤں نے مسلم حکمرانوں کی حکمرانی میں ترقی کی اور مسلمانوں کو ہندو حکمرانوں کی حکومت میں اہمیت حاصل ہوئی۔ ہر فریق نے اس بات کو تسلیم کیا کہ آپسی لڑائی جھگڑے خودکشی کے مترادف ہوتے ہیں اور کوئی بھی فریق ہتھیاروں کے بل پر اپنا مذہب نہیں چھوڑے گا۔ اس لئے دونوں فریقوں نے امن سے رہنے کا فیصلہ کیا ، لیکن انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی ہندو مسلم لڑائیاں شروع ہوئیں۔ایسے میں کیا ہمیں یہ یاد نہیں رکھنا چاہئے کہ کئی ہندوؤں اور مسلمانوں کے آباء و اجداد ایک ہی تھے اور ان کی رگوں میں ایک ہی طرح کا خون دوڑتا ہے۔ کیا لوگ اپنے مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے؟ آیا مسلمانوں کا خدا ، ہندوؤں کے خدا سے مختلف ہے؟ مذاہب مختلف سڑکوں کی طرح ہیں جو ایک نکتہ پر آکر ملتی ہیں۔ اگر ہم مختلف راہوں پر چلتے ہیں، ایک نہ ایک دن ہم اُس منزل پر پہنچ جائیں گے جو سب کی منزل ہے، ایسے میں لڑائی جھگڑے کیوں؟