ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ

ابتدائے افرینش سے ایں دم تک نیکی اور بدی کی طاقت نے جو ایک ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوئی ہے ایک دوسرے سے برسرپیکار رہی ہے ۔ایک کو سچائی کا تاج پہنایا گیا اور دوسرے نے یہ تاج خود ہی اوڑھ لیا ۔ ایک نیکی کا راستہ بتاتی ہے ‘ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتی ہے ‘ راہ حق پر چلاتی ہے ‘ مالک یزدی نے جو راہ بتایا ہے اسی پر گامزن رہیں تاکہ جنت میں جانے کا راستہ آسان ہوجائے ۔ دوسری طرف بدی ہمیشہ ہمیشہ سے نیکی سے الجھتی رہی ‘ انسانیت کو بھٹکاتی رہی ‘ راہ ِ حق سے ہٹانے کی سازش کرتی رہی‘ مالک ارض و سماں کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹانے کی جدوجہد کرتی رہی ۔ بدی میں اتنی طاقت ہے کہ انسان دنیا کا غلام ہوجاتا ہے۔ دنیاوی ضروریات کا مرید ہوجاتا ہے ۔ اپنی ہی خواہشات کا غلام ہوجاتا ہے ۔ خواہشات نفسانی اس پر پوری طرح حاوی ہوجاتی ہیں ۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس کو مدت دراز تک اس دنیا میں رہنا ہے اور دنیاوی عیش و عشرت میں مشغول ہوجاتا ہے ۔ دنیاوی کھیل تماشے کو اپنا مقصد حیات سمجھ لیتا ہے ۔ حرام و حلال طریقے سے مال کمانا اپنی منزل حیات سمجھ لیتا ہے اور دولت کا پجاری تک بن کر حوس کے مندر میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ انسانوں کی رہنمائی کے لئے مالک بحروبر نے وقتاً فوقتاً پیغمبروں کو ضروری ہدایت دے کر روانہ فرمایا ۔ جب کہ شیطان بدی کی طاقتوں کے مضبوط کارندوں کو بھیجتا رہا ۔ کسی نبی یا پیغمبر نے ایک دوسرے سے متضاد تعلیمات کا ذکر نہیں کیا ۔ انہوں نے ہمیشہ اللہ کی تعلیمات کا ذکر کیا ۔ دوسری طرف بدی نے کہا :
بابر با عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
نیکی اور بدی کی طاقتوں کی آویزش کا آغاز اُس وقت ہوا جب جنت کے شجر کے نیچے دو دلوں کو ملانے کے لئے شیطان نے سازش رچائی۔ انجام کار وہ جنت کی نعمتوں سے محروم کرکے نکال دیئے گئے ۔ زمین پر بھی ملعون شیطان رجیم نے اولادِ آدم کا پیچھا نہیں چھوڑا ۔ حق نے بھی استقامت اور پامردی کا بے نظیر مظاہرہ کیا اور اپنے لہو سے نئی تاریخ لکھی ۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کھال ‘ گوشت ‘ بوٹیوں کی شکل میں کفارانِ قریش نے اتار لی ۔ مطالبہ یہ تھا کہ ایک اللہ کے بجائے لات و عزیٰ کی پوجا کرو یہ آپ کو منظور نہ تھا ۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں اونٹوں کو باندھ کر چیر دیئے گئے ۔ لیکن انہوں نے اللہ اور محمد ؐ کا نام لینا نہیں چھوڑا۔ فرعون نے بھی اتنا ظلم اپنی بیوی آسیہ پر کیا کہ حد پار کردی ۔ پھر ایک ماں کو اپنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زندہ جلادیا ۔ حضرت بلال ؓ کے سینے پر پتھر رکھ کر گرم ریت پر لٹاکر غنڈوں کو کھڑا کردیا ۔ لیکن آپ احدٌ احدٌکہنے سے باز نہیں آئے ۔ پھر اُفق آفریقہ میں طارق بن زیاد کی شکل میں ایک نیا سورج طلوع ہوا ۔ جو چراغ مصطفوی ؐکی شکل میں شہنشاہ راڈرک آف اندلس سے ٹکرایا ۔ صرف 700سپاہیوں کی مدد سے راڈرک کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی ۔ دوسری طرف حضرت خالد بن ولید کے 500 سپاہیوں نے دولاکھ رومی فوجیوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا ۔ جب وجوہات پر غور کیا گیا تو ایک سپاہ سالار نے کیا خوب کہا ’’شہنشاہ ہم رات شراب پیتے ہیں اور مسلم سپاہی عبادت کرتے ہیں‘‘ بولہب کبھی فرعون کے روپ میں ‘ کبھی ہامان کی شکل میں وقوع پذیر ہوتا رہا ۔ اور ہر دور میں شکست اُس کا مقدر بنتی رہی ۔ چراغ مصطفویؐ آفتاب بن کر آسمان پر ہر زمانے میں منور رہا ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ وقت بدل گیا ہے ۔ جنگ کے طریقے بدل گئے ہیں ۔ اب بولہب تسلیما نسرین ‘ سلمان رشدی ‘ نپول شرما ‘ راجہ سنگھ کے بھیس میں ظاہر ہوا ہے ۔ کہیں آر ایس ایس اور کہیں بی جے پی بن کرسامنے آیا ۔ مقصد اُس کا ایک ہے ۔ارادے بھی ایک کہ کسی طرح چراغ مصطفویؐ کو بجھادیا جائے :’لیکن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘۔احتجاج ہمارا قانونی ‘ پیدائشی ‘ جمہوری حق ہے ۔ قرآن بے شک ’الحرے بالحرے ‘کی تعلیم دیتا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی صبر و نماز سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے ۔ یوں تو ؎
خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی
اس دور میں جینا ہوتو کہرام مچادو
اگر آقائے دوعالم ؐ بقید حیات ہوتے تو شرپسند عناصر کو معاف کردیتے ۔ آپ نے جنگ اُحد میں افواج کی رہنمائی کرنے والے ابوسفیان کو بھی معاف کردیا ۔ شعب ابی طالب میں انہیں محصور ہونے پر مجبور کردیا ان کو معاف کردیا گیا ۔ ہم کو اپنے آقا ؐکے راستے پر چلتے ہوئے اپنے دشمنوں کو معاف کردینا چاہئے۔اپنے دل سے بغض و عداوت کو نکال دینا چاہئے۔ ہماری غلطی یہی ہے کہ ہم نے اسلام کے امن اور شانتی کے پیغام کو مخالفین تک نہیں پہنچایا ۔ کم از کم سورہ اخلاص و سورہ کافرون کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کرکے غیرمسلموں تک پہنچائیے تاکہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں۔ مسلسل پانی گرنے سے پتھر میں سوراخ ہوجاتا ہے ۔ توپھر آپ کی کوششیں کیوں کام نہیں کرسکتیں۔ اُن کے درد میں شریک ہونے کی ضرور کوشش کیجئے ۔ دلوں کوجیتنے کی کوشش کیجئے ۔ نفرت کی آگ صرف اقتدار کی کرسی کے لئے بھڑکائی گئی ہے ۔ غریبوں کو کھانا اور کپڑا دیجئے ۔ بے شک تمہیں سربلند رہوگے اگر تم مسلمان ہو ۔
نفرت نے ہمیشہ حالات کو جنم دیا ہے ۔ اللہ نے فرمایا ’’تم ان کو برانہ کہو جن کی یہ اللہ کو چھوڑکر عبادت کرتے ہیں ورنہ یہ بے علمی اور جہالت سے اللہ کو برا کہیں گے ‘‘۔ (سورۂ انعام ۔ 108) کیا ہم نے اس پر غور کیا ؟ اگر کامیڈین مصطفی فاروقی اُن کے خداؤں کا مذاق نہ اڑاتا تو راجہ سنگھ ہمارے نبی کے ساتھ نازیبا ‘ بے ہودہ کلمات کہنے کی ہمت نہ کرتا ۔ اچھا کیا ہم نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ بتاؤ اگر یہ جھگڑا فساد کی شکل اختیار کرجاتا تو بے قصور ‘ بے سہارا غریب مسلمان مارا جاتا ۔ بتائیے کیا کوئی پی ایم ‘ ایم پی یا ایم ایل اے کوئی لیڈر شریک ہوتا ہے ؟ دیکھو بے گناہ بلقیس بانو نفرت کے اندھیرے میں تشدد کی شکار ہوگئی ۔ ہر ظلم کا جواب فی والوقت پتھر سے نادینا چاہئے ۔
مصطفی کمال نے جب دیکھا ایک مورچے پر سامنے انگریزوں کی فوج ہے تو اپنے بندوقوں کو نیچے کرنے کا حکم دیا ۔ پھر رینج (دائرہ) سے باہر نکلنے کے بعد فائر کرنے کا حکم دیا ۔ انگریز شکست سے دوچار ہوگئے ۔ حکمت عملی بہت رول ادا کرتی ہے ۔ ہمیں بھی حکمت عملی سے کام لینا چاہئے ۔ جوش سے نہیں ہوش سے طاقت رکھتے ہوئے صبر سے کام لینا ہے ۔ یہی اسلامی شعار بھی ہے ورنہ مخالف رسولؐ مکہ میں فتح کے بعد باقی نہ بچتا اور اسلام نہ پھیلتا ۔ تعلیمیافتہ غیر مسلم اکثر بہت سادہ دل ہوتے ہیں ۔ انہیں رہنمائی اور اسلام کے تعلق سے تعلیم کی ضرورت ہے جس میں ہم ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔ غیر مسلم کو مسلمان بنانا انسانیت کی معراج ہے ع
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
انہیں سمجھاؤکہ بھینس کو ہری گھانس کھلاکر سفید دودھ کون پیدا کرتا ہے ۔ کیاکوئی سائنسدان یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ مارکونی ‘ اڈیسن ‘ نیوٹن نے کیا کوئی انجکشن ایجاد کیا جس سے گھانس کھلاکر دودھ نکالا جاسکتا ہے ۔ یہ تو سوائے خدا کے کوئی نہیں کرسکتا ۔ مادہ کنگارو سے نوزائیدہ بچہ کس طرح آنکھ بند ہونے کے باوجود وہ اپنی ماں سے لگی ہوئی تھیلی میں جابیٹھتا ہے ۔ کس نے سجھائی اس کو یہ راہ ؟ شہد کی مکھی کو پھولوں سے رس نچوڑ کر جمع کرنا کس نے سکھایا؟ اللہ نے ۔ انہیں خدا کے وجود کا قائل کرو ۔ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ جنم نہیں لینا ہے ۔ یہ دنیا کی رنگینیاں ‘ یہ پھولوں کی پھبن ‘ کلیوں کی مسکان ‘ سبزہ کی لہلہاہٹ ‘ سمندرکی روانی ‘ دریاؤں کی طغیانی قیامت کے بعد دوبارہ نہیں ملے گی۔ سب کچھ تباہ ہوجائے گا ۔ نہ چرند نہ پرند نہ ذی روح نہ انسان باقی رہے گا ۔ صرف رہے نام اللہ کا ۔ مسلمانوں کو اپنے کردار سے غیر مسلم کو متاثر کرنا ہے ۔ تلوار کے زورسے غلط زبانی سے نہیں ۔ اس ملک میں اگر ہم اپنا رویہ نہ بدلیں تو ہمارے بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے ع
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں