فرینکفرٹ : جرمنی میں چار ماہ کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پابندیوں میں نرمی پر غور کرے۔ تاہم ملک میں کڑی پابندیوں کے باوجود کورونا کے کیسز میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔جرمنی میں کئی ماہ کی سخت سردی کے بعد فروری کے اواخر میں بہار کی آمد کے ساتھ موسم خوشگوار ہو رہا ہے۔ زیادہ تر شہری لگ بھگ چار ماہ کے سخت لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔ دوکانیں، کیفے اور ریستوران اب بھی بند ہیں۔ لیکن کھانے پینے کے لیے ‘ٹیک اوے فوڈ‘ کی اجازت ہے، جہاں اب لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا رہی ہیں۔ماہرین کے مطابق جرمنی میں شہریوں کی اکثریت نے وبا پر قابو کے لیے میل جول سے متعلق پابندیوں پر عمل کیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منفی نفسیاتی، سماجی اور معاشی اثرات سامنے آرہے ہیں اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایسے کب تک چلے گا؟فرینکفرٹ شہر کی گوئٹے یونیورسٹی کے پروفیسر رولف وان ڈِک کہتے ہیں اعدادوشمار یہی بتاتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت حفاظتی پابندیوں کی پاسداری کر رہی ہے۔ تاہم ان کے مطابق، لاک ڈاؤن جتنا طویل چلے گا، اس کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔