سرحد پر رقصِ موت

   

پی چدمبرم

آیا ہندوستان اور چین جھگڑوں یا تنازعات کے ایک نئے دور کے آغاز پر ہیں؟ جیسا کہ لگتا ہے۔ باب اول میں، چینی فوجی بڑی خاموشی اور چوری چپکے سے ہندوستانی علاقہ میں دراندازی کرتے ہوئے چند کیلو میٹرس تک گھس آئے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ چینی سپاہیوں کی اس دراندازی کا کوئی پتہ ہی نہیں چلا۔ چینیوں نے نہ صرف چوری سے ہندوستانی علاقہ میں دراندازی کی بلکہ وادیٔ گلوان کے کلیدی پوائنٹس پر قبضہ کرلیا۔ جن میں ہاٹ اسپرنگس اور پنگانگ سو شامل ہے۔ پانچ اور 6 مئی کو ہندوستان اور چینی سپاہیوں کا آمنا سامنا ہوا، ہاتھاپائی ہوئی جس سے ان کی دراندازی کا پتہ چلا۔ باب دوم میں، 15 اور 16 جون کی شب چینی سپاہیوں کی ہندوستانی سپاہیوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپ ہوئی نتیجہ میں ہندوستان کے 20 سپاہی شہید ۔ 80 سپاہی زخمی ہوئے اور 10 ہندوستانی سپاہیوں کو چین نے قیدی بنا لیا۔ تاہم 18 جون کو ان کی رہائی عمل میں آئی۔

ہندوستان ۔ چین سرحد ۔ یا لائن آف ایکچول کنٹرول
(LAC)
پر 1962 کی جنگ سے ہی حالات بہت کشیدہ رہے، لیکن 1975 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجیوں کی پرتشدد جھڑپ میں انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 45 برسوں سے جو امن برقرار رکھنے کا کارنامہ انجام دیا گیا تھا اس پر پوری طرح پانی پھر گیا اور مسٹر مودی کی قیادت میں یہ امن پوری طرح بکھر کر رہ گیا۔
دروغ گوئی : مودی حکومت نے پچھلے 6 برسوں سے عوام کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت سے متعلق جو تاثر دیا تھا وہ بالکل غلط ثابت ہوا۔ جس وقت نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے چینی حکومت کے انتہائی پسندیدہ بن گئے تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چینی حکومت نے نریندر مودی کی چار مرتبہ میزبانی کی۔ حد تو یہ ہیکہ ہندوستان کے دوسرے وزرائے اعظم کی بہ نسبت نریندر مودی نے 5 مرتبہ چین کا دورہ کیا۔ اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب مسٹر مودی ور چینی صدر مسٹر ژی جن پنگ کے درمیان ایک خصوصی کیمسٹری بھی تھی جیسا کہ ووہان (2018) اور مہابلی پورم (2019) میں دیکھا گیا۔ یہ تمام تاثرات اور بیانات دروغ گوئی کا ایک حصہ تھے اور اختلافات کا بلبلا 15-16 جون کو بالآخر پھٹ پڑا۔
ہند۔ چین فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ و تصادم اور پھر اس میں زندگیوں کے اتلاف کے بعد بھی ہندوستان کا رویہ جارحانہ ہونے کی بجائے مصالحانہ رہا۔ مرکزی وزارت امور خارجہ نے ایک کمزور بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ چین کی جانب سے جوں کے توں موقف میں یکطرفہ تبدیلی کی کوشش کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ کا واقعہ پیش آیا… تمام ہندوستانی سرگرمیاں ایل اے سی کے اپنی سرحد کی جانب جاری ہیں اور سرحد کے اس پار چین کی سرگرمیاں بھی اسی طرح جاری رہنے کی توقع ہے۔ دوسری طرف چین کا جواب انتہائی تیزرو اور جارحانہ رہا۔ پی ایل اے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وادی گلوان کا علاقہ ہمیشہ سے چین کا رہا ہے اور وہ اس کے اقتدار اعلیٰ کا ایک حصہ ہے۔ چین نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ چینی وزیر خارجہ نے ہندوستان کو نصیحت کر ڈالی کہ وہ تمام اشتعال انگیز کارروائیاں بند کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان کو چین کی فوجی طاقت کے بارے میں کسی خام خیالی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے کیونکہ چین پوری شدت اور قوت کے ساتھ اپنی علاقائی سالمیت کی حفاظت کرے گا۔

انٹلی جنس کی ناکامی : چین نے جاریہ سال مئی میں جس طرح سے کارروائی کی اس کے بارے میں کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔ جس بڑے پیمانے پر کلیدی پوائنٹس میں دراندازی کی گئی اس سے یہی محسوس ہوتا ہیکہ اس تمام عمل کی کئی ماہ سے بہت ہی احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی کی گئی۔ ہوسکتا ہیکہ یہ منصوبہ بندی اگست 2019 سے ہی شروع کی گئی جب مودی حکومت نے جموں و کشمیر کا دستوری موقف تبدیل کردیا۔ مودی حکومت کسی بھی طرح اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی کہ چین نے لداخ میں ہماری ایک بہت بڑی زمین پر قبضہ کرلیا ہے( یہ اور بات ہے کہ حکومت اس حقیقت سے انکار کرے گی)۔ چین لداخ کے ایک بہت بڑے حصہ پر نہ صرف قابض ہے بلکہ اپنے اقتدار اعلیٰ کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور اس پر وہ بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ کی تعمیر کررہا ہے جو گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے پاکستان سے اس پراجکٹ کو جوڑے گا۔ گلگت بلتستان بھی لداخ کا ایک حصہ ہے۔ ہندوستان نے جب ڈی بی او روڈ کو جوڑنے والی فیڈر روڈ کی تعمیر کرنی شروع کی تب چین نے اس پر اعتراض کیا حالانکہ ہندوستان اپنی جانب کی ایل اے سی میں یہ روڈ تعمیر کررہا تھا۔ (باقی سلسلہ اندرونی صفحہ پر)