حیدرآباد۔ 15 اگست (سیاست نیوز) سرورنگر علاقہ سے لاپتہ مسلم نوجوان کا اغوا کرنے کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا گیا اور نعش کے ٹکڑے کرکے نعش کو جلا دیا گیا۔ پراسرار طور پر لاپتہ مسلم نوجوان محمد عمران کا 10 دن بعد پتہ چلا جبکہ اس کے رشتہ دار ہر دن پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹ رہے تھے لیکن قابل اعتماد اور بین الاقوامی سطح کی پولیس سے تقابل کی جانے والی تلنگانہ پولیس اس نوجوان کا پتہ چلانے میں ناکام ہوگئی۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ تلنگانہ پولیس نے مسلم مسائل پر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا بلکہ سنگاریڈی اور رچہ کنڈہ اور کلثوم پورہ کے واقعات اس بات کے شاہد ہیں۔ محمد عمران 5 اگست سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ 24 سالہ نوجوان بیٹے کے اچانک لاپتہ ہونے پر پریشان حال والدہ اور ان کے بھائی بہن تشویش میں مبتلا تھے۔ پولیس نے ان کی ایک فریاد نہیں سنی۔ پولیس کی مجرمانہ غفلت ایک جوان لڑکے کی ہلاکت کا سبب بن گئی۔ محمد عمران بھگت سنگھ نگر فیس 2 کے ساکن محمد خالد کا بیٹا تھا جو پیشہ سے بیاگوں کی دکان میں کام کرتا تھا۔ 5 اگست کے دن جب عمران لاپتہ ہوگیا تو یہ خاندان پولیس سے رجوع ہوا لیکن پولیس نے ان کی درخواست پر کان نہیں دھرے اور 6 اگست کو چکر کاٹنے کے بعد 7 اگست کو گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا اور کوئی کارروائی نہیں کی گئی جب بھی عمران کے افراد خاندان پولیس سے عمران کے متعلق دریافت کرتے تو انہیں ایک جواب دیا جاتا کہ تلاش جاری ہے۔ ایک تلگو اخبار میں شائع خبر کے بعد پولیس حرکت میں آئی جس میں ایک نوجوان کو شمشان گھاٹ میں جلا کر مارنے کی خبر شائع ہوئی۔ پولیس نے راتوں رات کارروائی کرتے ہوئے انتہائی راز دارانہ انداز میں قاتلوں کو جیل بھیج دیا جبکہ اس کا ذکر میڈیا سے بھی نہیں کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق عمران نے ایک موٹر سائیکل خریداری اور اپنے ساتھی لکشمن سنگھ عرف سونو سنگھ کو دی تھی۔ سونو سنگھ نے موٹر سائیکل کو حادثہ میں تباہ کیا اور عمران موٹر سائیکل کی مرمت کیلئے سونو سنگھ پر رقم کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا ۔ اس مسئلہ پر دونوں میں دشمنی ہوگئی۔ سونو سنگھ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمران کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ 5 اگست کو عمران کو رقم دینے کے بہانے طلب کیا اور شمشان گھاٹ لے جاکر اس کا قتل کیا اور نعش کے ٹکڑے کرکے جلا دیا اور فرار ہوگئے۔ سونو سنگھ کے ساتھ عمران کے قتل میں بتی، شام، ارون، کوشک اور راہول ملوث ہیں جبکہ ایک اور قاتل فرار ہے۔ اس واقعہ کی اطلاع کے بعد قائد مجلس بچاؤ تحریک امجد اللہ خان خالد نے عمران کے گھر جاکر افراد خاندان سے ملاقات کی اور دلاسہ دیا۔ قائد ایم بی ٹی نے اعلیٰ پولیس عہدیداروں کی توجہ مبذول کروائی اور واقعہ کی حقیقت سے انہیں واقف کرواتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے پولیس کمشنر و ڈی جی پی سے سے درخواست کی کہ وہ خاطی پولیس عہدیداروں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے دیگر لاپرواہ عہدیداروں کے خلاف سخت پیغام دیں۔ تلنگانہ پولیس کو چاہئے کہ وہ زبانی دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعہ اپنے آپ کو نمبر ون پولیس ثابت کرے۔ انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ سرور نگر پولیس کی کارروائی قاتلوں کو بچانے اور ان کی پشت پناہی ثابت ہو رہے ہیں۔ع
پولیس کا اس طرح کا رویہ سماج میں بے چینی اور بدامنی پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے اور مجرموں کو پولیس کے رویہ سے حوصلہ حاصل ہوگا۔ دیگر صورت میں پولیس کے اقدامات حکومت کی بدنامی اور حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ع