روش کمار
پڑوسی کا گھر جل رہا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے ہی گھر کو جلا کر اس کی گرمی محسوس کرنے لگیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس بات کو لے کر محتاط رہنا چاہئے کہ پڑوسی کے گھر کو لگی آگ ہمارے گھر کو نہ پہنچے۔ جہاں تک حکومت کی جانب سے اصلاحات کے نام پر ہر چیز فروخت کرنے کا سوال ہے، سری لنکا میں بھی یہی کیا گیا۔ راجہ پکسا کی حکومت نے اصلاحات کا نام لے کر سرکاری املاک فروخت کرنی شروع کردی اور اس وقت عوام نے بھی راجہ پکسا اور ان کے ارکان خاندان کی تائید و حمایت میں نعرے لگائے۔ اب یہ نعرے راجہ پکسا اور ان کے خاندان کی مخالفت میں تبدیل ہوگئے ہیں، وہ لوگ جو کل تک ان کی تائید میں نعرے لگایا کرتے تھے، اب وہی لوگ ملک کو فروخت کرنے کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، لیکن جو فروخت کرنا تھا، وہ فروخت کردیا گیا ہے۔ سری لنکا میں جو کچھ بھی تباہی و بربادی آئی ہے، اس کے پیچھے جو اہم وجہ ہے، وہ ایک خاندان کو اہمیت دینا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اقتصادی پالیسیوں میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ سری لنکا میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ناقص معاشی پالیسی نے معیشت کو زوال سے دوچار کردیا جو سری لنکا کی تباہی کی شکل میں سامنے آئی۔ آج اگر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف، ہر ملک میں ایک ہی کتاب سے لی گئی عالمی معاشی پالیسی تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے اور زبردستی عالمی معاشی پالیسیوں پر عمل آوری کی جارہی ہے۔ جب تک اِن پالیسیوں کے بارے میں عوام کا احساس بہتر ہوتا ہے تب اُن معاشی پالیسی کی کامیابی کا سہرا باندھنے کے بے شمار دعوے دار پیدا ہوجاتے ہیں اور جیسے ہی بحران پیدا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی خود کو ذمہ دار قرار نہیں دیتا۔ بہرحال آج سری لنکا میں لوگ اسی شخص کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جسے انہوں نے ہی تین سال قبل بھاری اکثریت سے کامیاب بناکر عہدۂ صدارت پر فائز کیا تھا۔ اس وقت گوتا بایا راجہ پکسا سری لنکا کو سنگاپور بنانے کا خواب فروخت کررہے تھے۔ مذہب کی سیاست اور ترقی کے فرضی خواب نے راجہ پکسا کو ملک میں زبردست کامیابی دلائی لیکن اس سیاست کا ڈھول اتنی جلدی پھٹ جائے گا ، کسی نے نہیں سوچا تھا ۔ آپ 2019ء کے جائزہ کا مطالعہ کیجئے تب پتہ چلے گا کہ راجہ پکسے چین کے قریب مانے جاتے تھے۔ مذہب کے فخر کی بات بھی کرتا ہے اور سری لنکا کو 15 سال کی معاشی سست روی سے باہر نکال لے گا لیکن جو سوچا گیا تھا کہ وہ سب اُلٹا ہوگیا۔ افراطِ زر جو جنوری میں 16.8% تھا، فروری میں بڑھ کر 17.5% ہوگیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں 10 تا 13 گھنٹے برقی مسدودی کا سلسلہ جاری ہے۔ سری لنکا جو چاول کھاتا تھا، آج وہ چاول خریدنے سے بھی قاصر ہے۔ وہاں 300 تا 500 روپئے فی کیلو چاول فروخت کیا جارہا ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سری لنکا کی نصف آبادی ایک وقت کا کھانا بھی خرید نہیں سکتی۔ ملک کے 55% لوگ یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ان کی آمدنی فی ماہ 22,000 روپئے سے کم ہے۔ ایسے میں اس تنخواہ پر چار ارکان پر مشتمل ایک خاندان دو ہفتوں تک بھی گذارا نہیں کرسکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سری لنکا اس قدر خطرناک صورتحال میں کیسے پہنچ گیا؟
جس طرح سری لنکا میں صنعت کاروں کو خوش کرنے کیلئے کارپوریٹ ٹیکس میں غیرمعمولی تخفیف کی گئی، اسی طرح ہندوستان میں بھی کارپوریٹ ٹیکس گھٹا دیا گیا۔ راست محاصل یا ٹیکس بھی کم کردیا گیا۔ اس طرح حکومت کے مجموعی مالیہ میں بھی 560 ارب روپئے کی تخفیف کی گئی اور جب حکومت نے زیادہ سے زیادہ اشیاء کو ٹیکس یا محاصل کے جال کے تحت لانا شروع کیا تاکہ اپنی آمدنی میں اضافہ کیا جائے، تب قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اضافی قدر ٹیکس یا ویاٹ اور جی ایس ٹی میں کیا فرق ہے، لیکن یہاں میں ایک مثال دینا چاہوں گا، جی ایس ٹی پر ملائیشیا میں بھی عمل آوری کی گئی لیکن جب چھوٹے کاروباری افراد تباہ ہوئے تب وہاں 2018ء میں وہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت تبدیل کردی گئی۔ ملائیشیا کے حکمرانوں نے دیکھ لیا کہ جی ایس ٹی چھوٹے کاروباریوں کیلئے نقصان دہ ہے تو ان لوگوں نے اپنے ملکوں میں جی ایس ٹی منسوخ کردیا۔ ہندوستان میں بھی اس بات کے خدشات پائے جاتے ہیں کہ جی ایس ٹی کے نتیجہ میں چھوٹے تاجرین معاشی طور پر تباہ ہورہے ہیں۔ اس بات پر توجہ دینے کے بجائے اخبارات میں یہ سرخیاں شائع ہورہی ہیں کہ ہر ماہ کس طرح جی ایس ٹی کلیکشن ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرتا جارہا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ تجارتی تنظیموں نے جی ایس ٹی کے تعلق سے اس قسم کے سنگین الزامات عائد نہیں کئے لیکن سری لنکا کا بحران، ہندوستانی شہریوں سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم اقتصادی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق سنجیدہ ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر آر بی آئی نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ گزشتہ سات برسوں کے دوران ہر روز 100 کروڑ روپئے کے بینک دھوکہ دہی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ یکم اپریل 2015ء اور 31 ڈسمبر 2021ء کے درمیان 2.5 لاکھ کروڑ سے زائد رقم کی دھوکہ دہی منظر عام پر آئی، لیکن سوچئے کہ کتنے عام لوگوں کے پاس ڈھائی لاکھ کروڑ روپئے ہوں گے۔ کیا وہ یہ رقم واپس حاصل کرسکیں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ عوام کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں خاص طور پر قیمتوں میں اضافہ کے سرکاری اقدامات پر خاموشی اختیار کرتی ہے اور جب حالات حد سے زیادہ خراب ہوجاتے ہیں تو پھر آواز اُٹھاتی ہے۔ کانگریس کے سینئر قائد اور سابق مرکزی وزیر فینانس پی چدمبرم نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے آٹھ سال میں مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر اکسائیز ڈیوٹی کی شکل میں 26 لاکھ 51 ہزار 919 کروڑ روپئے جمع کئے۔ ہندوستان میں 26 کروڑ خاندان رہتے ہیں۔ اس طرح ہر خاندان سے ایک لاکھ روپئے بطور اکسائز ڈیوٹی جمع کئے گئے ۔ پچھلے دو برسوں سے مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جس کے نتیجہ میں عوام کی بچت ختم ہوگئی۔ عوام غریب ہوگئے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ حکومت ، پٹرول اور ڈیزل پر عائد اکسائز ڈیوٹی میں کمی نہیں کرتی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت نے پہلے ہی کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کردی ۔ ایسے میں مہنگائی بڑھ گئی اور پھر اپوزیشن مہنگائی کی مخالفت کررہی ہے اور اس احتجاج میں عوام نہیں دیکھے گئے۔الغرض! ہندوستان کی طرح سری لنکا میں بھی ٹرانسپورٹ مہنگا ہوگیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولس بھی بھیج نہیں پارہے ہیں۔ ایسے حالات ہندوستان میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سری لنکا پر عالمی مالیاتی ادارہ کا دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ غرض ہر شعبہ میں سری لنکا پیچھے ہوگیا ہے۔ ایسے میں ہندوستانیوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔