سستا نشہ ‘ ناجائز تعلقات اور اخلاقی بے راہ روی قتل و غارت گری کے واقعات کی اصل وجہ

   

٭ پولیس کی تن آسانی اور تعلقات سے روڈی عناصر کے حوصلے بھی بلند
٭ پولیس عملہ کی ساری توجہ تصویرکشی پر مرکوز ‘ جرائم پیشہ افراد سے دوستیاں ۔درمیانی افراد کی مشکوک سرگرمیاں
٭ بستی کے سرکردہ افراد اور سیاسی قائدین کا ’ جنازوں ‘ میں شرکت پر اکتفاء ۔ لعنت کے خاتمہ پر توجہ نہیں
٭ مذہبی ‘ سماجی اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے منظم مہم چلائے جانے کی ضرورت

خلیل قادری
حیدرآباد 22 جون :حیدرآباد ان دنوں ایسا لگتا ہے کہ بارود کے ڈھیر پر آگیا ہے ۔ شہر میں آئے دن قتل و خون اور غارت گری کے واقعات عام ہوگئے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں سے صورتحال انتہائی دھماکو ہوگئی ہے ۔ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ کب کہاں کس کا قتل کردیا جائے ۔ یہ مسئلہ جہاں لا اینڈ آرڈر کا ہے وہیں اس کی وجوہات میںمختلف سماجی برائیاں بھی شامل ہیں۔ قتل و خون کی جو وارداتیں پیش آ رہی ہیں ان میں اکثریت مرنے والوں کی بھی مسلمانوں کی ہے اور مارنے والوں کی بھی مسلمانوں کی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس نے بلا وجہ کسی چیونٹی کو بھی مارنے سے روکا گیا ہے ۔ ہمیں اسلام نے یہ درس دیا ہے کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے ۔ اس کے باوجود ہم اس قتل و غارت گری کے سلسلہ کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ جب یہ قتل کی وارداتیں پیش آ رہی ہیں تو مختلف گوشوں سے مختلف وجوہات کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ تمام وجوہات اپنی جگہ درست بھی ہوسکتی ہیں ۔ ہمیں ضرورت اس بات کا جائزہ لینے کی ہے کہ حالات یہاں تک کیوں پہونچ چکے ہیں۔ آج اگر ہم شہر کے حالات اور مسلمانوں کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم کہاں پہونچ چکے ہیں۔ آج شہر میں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں میں سستا نشہ عام بات ہوگئی ہے ۔ گانجہ ‘ نشہ آور ادویات ‘ پٹرول کا نشہ اور Thinner کا نشہ عام ہوگیا ہے ۔ اب بات تو منشیات تک پہونچ چکی ہے ۔بطور خاص نوجوانوں اور بحیثیت مجموعی سارے معاشرہ میں غیر اخلاقی حرکتیں عام ہیں۔ ناجائز تعلقات و معاشقے عام بات ہوگئی ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے کہ اس لعنت کو روکا جائے اور اس کے خلاف سماج اور خاص طور پر نوجوانوں میں شعور بیدار کے جائے ۔ ہم اپنے نوجوانوں کی مصروفیت ‘ ان کی دوستیوں اور ان کے تعلقات کا جائزہ لینے کو تیر نہیں ہیں۔ شہر میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جو اسطرح کی چلر گینگس کا مرکز بن گئے ہیں۔ ان مقامات پر غیر سماجی عناصر کی سرگرمیاں کھلے عام جاری رہتی ہیں۔ نشہ ان کیلئے معمول کی بات ہوگئی ہے ۔ کئی نوجوان توا یسے ہوگئے ہیں کہ نشے کے بغیر ان کا گذر ہی نہیں ہوسکتا ۔ نشہ کی لت میں وہ صحیح اور غلط کے تعلق سے سوچنے سے قاصر ہیں۔ جہاں نوجوان سستے نشے کے عادی ہوگئے ہیں وہیں انہیں نشہ کا سامان بھی بآسانی دستیاب ہونے لگا ہے ۔ پولیس اس معاملے میں بے اثر نظر آتی ہے ۔ نشہ آور اشیا فروخت کرنے والے کھلے عام یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ پولیس کے ساتھ ان کی ’’ سیٹنگ ‘‘ ہے ۔ ان کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔ جہاں تک روڈی عناصر کی بات ہے تو ان کے دلوں میں پہلے پولیس کا خوف ہوا کرتا تھا تاہم اب یہ لوگ پولیس سے اپنے تعلقات کا فخریہ انداز میں ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی دعوے کئے جاتے ہیں کہ کئی روڈی عناصر پولیس کے ساتھ اچھے مراسم رکھتے ہوئے دوسروں کے خلاف ان مراسم کا استعمال کرتے ہیں۔ پولیس کی مخبری کرتے ہیں۔ کئی پولیس اہلکار ایسے ہیں جو ان روڈی عناصر سے اپنے کام بھی کرواتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ خانگی دعوتیں ‘ شخصی کام کیلئے گاڑیوں کا انتظام وغیرہ بھی کیا جاتا ہے ۔ کہیں اگر پولیس عہدیدار سختی سے پیش آتے ہیں تو ماتحت عملہ ایسے عناصر کو بچانے کی فکر میں نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ عہدیداروں کو گمراہ کرنے سے بھی باز نہیںآتے اور اپنے تعلقات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ایسے تعلقات کی آڑ میں یہ روڈی عناصر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوتے ہیں۔ شہر میں کئی گینگس بن گئی ہیںاور ان کا حصہ بننے والے اکثر و بیشتر نوجوان ہیں جن کی عمریں 18 تا 25 سال کے درمیان ہیں۔ ان کی اکثریت نشہ کی عادی ہوتی ہے اور مخرب اخلاق سرگرمیاں ان کیلئے عام بات ہیں۔ سماج میں قتل و غارت گری کی بنیادی وجوہات میں جہاں نشہ شامل ہے وہیں ناجائز تعلقات بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں ۔ گذشتہ دنوں بالاپور پولیس حدود میں پیش آئی اس کی ایک مثال ہے ۔ پولیس عملہ اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان کئی درمیانی افراد بھی سرگرم رہتے ہیں اور ان کی سرگرمیاں بھی مشکوک ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ بستیوں کے ذمہ دار اور سیاسی قائدین قتل و غارت گری کے بعد صرف جنازوں میں شرکت کرتے ہوئے تصویر کشی میں مصروف ہیں ۔ سوشیل میڈیا پر تشہیر بھی کی جاتی ہے لیکن جرائم اور قتل و غارت گری کو روکنے کی ان کی جانب سے کوئی کوشش نہیں ہوتی ۔ شعور بیدار کرنے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ جو پولیس عملہ رات 11 بجتے ہی دوکانوں وغیرہ کی تصویر کشی میں مصروف رہتا ہے وہیں رات دیر گئے یہ لوگ مشکوک افراد کے ساتھ چہل قدمی اور چائے نوشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قتل و غارت گری سماج کے منہ پر ایک کلنک سے کم نہیں ہے اور ناجائز تعلقات بھی ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں۔ جو نوجوان اس طرح کے واقعات میں ملوث ہو رہے ہیں ان کے والدین بھی ایک طرح سے غفلت کا شکار ہیں اور ایسے واقعات کیلئے بالواسطہ طور پر ذمہ دار قرا دئے جاسکتے ہیں۔ نوجوانوں پر کنٹرول اور ان پر نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اکثر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ والدین کا نوجوان اولاد پر کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ جہاں والدین کنٹرول کرنا چاہتے ہیں وہاں یہ نوجوان نشہ کی لت کا شکار ہوکر والدین سے ہی ہتک آمیز رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور والدین کوہی ڈرانے دھمکانے سے باز نہیں آتے ۔ شہر کے حالات اور مسلم معاشرہ میں پائی جانے والی ان لعنتوں کے خاتمہ کیلئے جہاں پولیس کو پوری سنجیدگی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں مذہبی تنظیموں اور اداروں کے علاوہ سماجی اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو بھی اپنا رول نبھانا چاہئے ۔ انہیں سماج میں اس طرح کی لعنتوں اور برائیوں کے خلاف منظم انداز میں مہم چلانی چاہئے ۔ خاص طور پر نوجوانوں کو ان لعنتوں اور برائیوں سے بچانا سب کی ذمہ داری ہے ۔ اسکولس ہوں ‘ کالجس ہوں ‘ سلم آبادیاں ہوں یا پھر اچھی کالونیاں ہوں سبھی مقامات پر نوجوانوں میںاعتماد پیدا کرنے اور انہیں برائیوںسے بچنے کی تلقین کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں برائیوں سے بچاتے ہوئے سماج کے ذمہ دار شہری کی صورت میںپروان چڑھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ سماج کا ہر ذمہ دار اور باشعور طبقہ اس جانب تو جہ دے ۔ ہم سب کو حرکت میں آنا چاہئے قبل اس کے کہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں ۔