ریاض: 85 سال قبل مشرقی سعودی عرب میں آتش فشاں ریگستان کے وسط میں واقع شہر ’’بقیق‘‘ ایک پرسکون شہر سے عالمی توجہ کے مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی سرزمین میں تیل کی دریافت ہوئی ہے۔ اب یہ شہرسعودی عرب میں تیل پیدا کرنے والے سب سے اہم اڈوں میں سے ایک اور ایک مضبوط اقتصادی ستون بن گیا ہے۔ بقیق میں میں تیل کو صاف کرنے کی سہولیات، گیس پلانٹس، اور تیل کی پائپ لائنوں کا مرکز ہے جو تیل کو فیلڈز سے برآمدی بندرگاہوں تک پہنچاتا ہے۔اس چھوٹے سے شہر کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب سعودی آرامکو نے 1940 میں ’’بقیق‘‘ فیلڈ کو دریافت کیا اور اس شہر کو کمپنی کے ملازمین کیلئے ہیڈ کوارٹرز بنانے کا منصوبہ بنایا۔ یہیں سے شہر میں ترقی کی تحریک شروع ہوئی اور آج اس شہر میں سعودی عرب میں تیل کی پروسیسنگ کی سب سے بڑی سہولیات موجود ہیں دنیا کا سب سے بڑا تیل کنسریشن پلانٹ بھی یہیں موجود ہے۔بقیق فیلڈ کی دریافت دمام کنویں نمبر 7 یا الخیر کنویں کی دریافت کے بعد ہوئی تھی۔ دمام کنویں نمبر7 کو سعودی عرب میں مارچ 1938 عیسوی میں دریافت ہونے والا پہلا تیل کا کنواں سمجھا جاتا ہے، یہ ظہران سے چند میل شمال میں پہاڑی پر واقع ہے۔اس آئل فیلڈ کو بقیق نام دینے کیوجہ موجودہ شہر بقیق کے شمال میں ’’بقہ‘‘ نام کے علاقہ کی موجودگی ہے۔ جب اس علاقے میں جائیں تو یہاں پانی کا ایک چشمہ ہوتا تھا۔ پانی کا چشمہ بننے کی وجہ سے اسے ’’بقہ‘‘ یعنی پانی کا چشمہ کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ اب بھی موجود ہے۔یہ بہت سے قبائل کیلئے ایک منزل تھی جو قدیم زمانے میں اس علاقے میں آباد تھے۔ یہ خطہ اب بھی شہر کے ہمسایہ علاقوں کیلئے ایک اہم مرکز ہے۔ ان علاقوں میں الدغیمیہ، عین دار اور الجویہ شامل ہیں۔ ان علاقوں کے رہائشیوں کا تعلق معروف قبائل سے ہے جو اس خطے میں طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ یہ قبائل ہواجر، عجمان، مرہ اور خوالد ہیں۔