ریاض: سعودی عرب نے ملک کو روشن خیالی کی راہ پر لانے کی مہم میں سخت گیر مذہبی پولیس کے اختیارات میں بڑے پیمانے پر کمی کی تھی لیکن اب ایک متوقع ”عوامی تہذیب“ کے قانون لائے جانے سے ایک بار پھرملک کے معتدل حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے انتہائی قدامت پسند تاثر ختم کرنے کیلئے ملک میں سنیما گھروں، مخلوط لڑکے لڑکیوں کیلئے موسیقی او رکھیلو ں کے مقابلوں کا آغاز کیا ہے او راس بات کا تہیہ کیا ہے کہ ملک کو اب اعتدال پسند اسلام کی جانب لے جایا جائے گا۔ اے ایف پی کی خبر کے مطابق سعودی عرب نے اب فیصلہ کیا ہے کہ شہریوں کے رویہ کی نگرانی کی جائے جس کیلئے سعودی کابینہ نے عوامی تہذیب کے نئے قانون کو اپریل میں منظور کیا تھا لیکن اب تک واضح نہیں ہے کہ اس کا اطلاق کب سے ہوگا۔
اس نئے قانون کے مطابق سعودی شہری اخلاقی قدروں کی پاسداری کریں گے، عوامی مقامات پر ایے کپڑے نہیں پہنیں گے جس سے دوسروں لوگوں کی دلآزاری ہو او ردیواروں پر ایسے نقوش و نگار اور نعرے بازی نہیں لکھی یا بنائی جائے گی جو کہ عوام کیلئے نقصان دہ ہو۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر پانچ ہزار ریال تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس نئے قانون کی بعض لوگ پسند کررہے ہیں جبکہ بعض اس سے خوفزدہ ہیں۔ ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا ہے کہ مذہبی پولیس ایک بار پھر واپس آگئی ہے۔ اس بار بغیر داڑھی کے۔ماضی میں مذہبی پولیس گلیوں او ربازاروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ او رایسی خواتین کو تنبیہ کیا کرتے تھے جو اپنے ناخنوں پر پالش لگایا کرتیں او ر غیر مردوں کے ساتھ گھومنے پھرنے سے منع کیا کرتی تھیں۔