سعودی عرب کی مجوزہ نیوم میگا سٹی کو ایک اور بڑا جھٹکہ

   

پراجکٹ سے طویل عرصہ سے وابستہ سی ای او ندیمی النصر نے بغیر وجہ بتائے استعفیٰ دے دیا

ریاض :سعودی عرب کی 1.5 ٹریلین ڈالر کی نیوم میگاسٹی کو ایک اور برا جھٹکہ لگا ہے۔پراجکٹ کے طویل عرصے سے کام کرنے والے سی ای او ندیمی النصر نے بغیر وجہ بتائے اچانک استعفیٰ دے دیا ہے۔ قیادت کی یہ اچانک تبدیلی مجوزہ میگا سٹی کو درپیش چیلنجوں میں تازہ ترین ہے۔ پہلے ہی اس پراجکٹ کو نظر ثانی شدہ ٹائم لائنز اور کام کے سخت حالات کا سامنا ہے۔ 2017 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے شروع کیے گئے وژنری پرجکٹ کے تحت نیوم کو صوبہ تبوک میں 26,500 مربع کلومیٹر کا ایک انتہائی جدید شہر بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ النصر جو 2018 سے اس پراجکٹ سے وابستہ تھے وہ اچانک ان رپورٹس کے درمیان رخصت ہو گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ان کی رخصتی کارکردگی کے اہداف اور ایک متنازعہ انتظامی انداز کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مبینہ طور پر النصر ملازمین کے خلاف توہین آمیز ریمارکس اور دھمکیاں دینے کیلئے جانا جاتا تھا۔ النصر کی جگہ سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) کے ایک سینئر عہدیدار ایمن المدیفر کو اب یہ دمہ داری دی گئی ہے ۔ المدیفر، نیوم کے وژن اور لاجسٹک چیلنجز کے بارے میں اپنی حکمت عملی کی سمجھ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کا مقصد اس منصوبے میں آپریشنل تسلسل اور کارکردگی کو باقاعدہ بنانا ہے۔ نیوم میگا سٹی کو ابتدائی طور پر 2030 تک 1.5 ملین لوگوں کے رہنے کے لیے ایک شہر کے طور پر تصور کیا گیا تھا لیکن موجودہ تخمینوں کے مطابق 300,000 سے کم رہائشی ہی بتا ئے جاتے ہیں۔ منصوبہ بند 170 کلو میٹر کی آئینہ دار فلک بوس عمارت، “دی لائن” کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ 2030 تک مکمل ہونے کی امید ہے۔ یہ منصوبہ، تیل کی آمدنی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، تیل کی توقع سے کم قیمتوں کی وجہ سے تناؤ کا شکار ہے جو سعودی عرب کے بجٹ کو متوازن کرنے کے لیے ضروری سطح سے تقریباً 24 ڈالر فی بیرل نیچے ہیں۔ اس مالی دباؤ نے پی آئی ایف کو اپنی حکمت عملی کو اعلیٰ کامیابی کے امکانات والے منصوبوں کی طرف منتقل کرنے کا باعث بنا ہے۔ سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ اور افرادی قوت کے مسائل بھی سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ نیوم میگا سٹی کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کو راغب کرنے کے لیے سعودی عرب کی کوششوں کے باوجود نیوم کے بڑے پیمانے نے مغربی نجی ایکویٹی فرموں اور فینانسرز میں شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔ سخت کام کرنے والے حالات اور کچھ ایگزیکٹوز کی طرف سے امتیازی سلوک کی اطلاعات نے پراجکٹ کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ جبری نقل مکانی کا تنازعہ بھی نیوم کو اس کے سماجی اور ماحولیاتی اثرات کیلئے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تعمیر کے لیے مقامی کمیونٹیوں کی منتقلی کی ضرورت پڑی ہے، بشمول ہوئیٹات قبیلے، جس کے نتیجے میں تنازعہ اور مزاحمت ہوئی ہے۔ محتلف رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاج کرنے والے ہوئیٹات کے کچھ ارکان کو موت کی سزا اور ماورائے عدالت کارروائیوں سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔