جدہ ۔ 9فبروری ( سیاست ڈاٹ کام ) جدہ میں اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تحت کونسل برائے وزرائے خارجہ (سی ایف ایم) کا 47 واں اجلاس جو 11 فروری تک جاری رہے گا۔لیکن اس اجلاس میں اب زیادہ دلچسپی اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ سعودی عرب نے پاکستان کی کشمیر پر سی ایف ایم کا اجلاس بلانے کی درخواست اب تک قبول نہیں کی اور اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی ہچکچاہٹ پاکستان کے لیے مایوسی کا سبب بن رہی ہے۔اسی بارے میں بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے ملائیشیا کے اپنے حالیہ دو روزہ دورے میں ایک ملائشین تِھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر یک زبان نہیں ہے۔ ’ہم بٹے ہوئے ہیں۔۔۔ ہم ابھی تک کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہیں بلا سکے۔‘لیکن اسی بارے میں دفترِ خارجہ کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ سعودی عرب ہچکچا رہا ہے۔ میں نے بذاتِ خود انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی رپورٹ او آئی سی کے انڈیپینڈنٹ پرمننٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے پیش کی، لیکن اس کے باوجود کچھ خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔‘اگست 2019 میں انڈیا نے جب اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تو اْس کے ساتھ ساتھ کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات کا راستہ بھی بند ہوگیا۔اس کے بعد سے پاکستان مختلف بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر سے متعلق اپنا مؤقف بیان کرتا آرہا ہے اور ان پامالیوں کے نتیجے میں انڈیا کے خلاف کارروائی کا متمنی بھی ہے۔او آئی سی 57 مسلمان اکثریت ممالک پر مشتمل کونسل ہے جس کے اندر بیشتر کمیٹیاں مسلم اْمّہ کو درپیش مسائل پر اپنی طرف سے تگ و دو کرتی رہتی ہیں۔ان سبھی ممالک کے سربراہان کی مصروفیات اور ہفتہ وار ملاقات ممکن نہ ہونے کی صورت میں سی ایف ایم یعنی ان ممالک کے وزرا خارجہ کی ایک کونسل تشکیل دی گئی ہے، جو ان ممالک کے آپسی اور دیگر ممالک کے ساتھ مسائل اجاگر کرتے ہیں۔سی ایف ایم اجلاس ہر سال مختلف رکن ریاست میں ہوتا ہے۔ اب تک پاکستان نے چار سی ایف ایم اجلاس1970، 1980، 1993 اور 2007 میں منعقد کیے ہیں۔دفترِ خارجہ کے ایک سینیر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ او آئی سی کا سی ایف ایم اجلاس دوسرا بڑا فیصلہ ساز اجلاس ہے اور اگلے سال سی ایف ایم کا اجلاس اسلام آباد میں متوقع ہے۔جہاں تک اس کے خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی بات ہے تو اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس فورم کو بروقت استعمال کیا جائے تو رکن ریاست اہم موضوعات پر دیگر مسلم ممالک کی توجہ لاسکتی ہے۔او آئی سی کے تحت شکایات کا کوئی طریقہ کار تو نہیں ہے البتہ کشمیریوں کے حقوق اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی پامالیوں پر ایک جامع رپورٹ مرتب کی جاتی رہی ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے کہا کہ ’سی ایف ایم میں شامل وزرائے خارجہ کا اثر و رسوخ اور لابی خاصی مضبوط ہوتی ہے، اور یہ مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین ان تمام معاملات پر دیگر ممالک کو اکٹھا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔