سفر حج جسے بھلا نہیں سکتا

   

محمد نعیم وجاہت
ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں اسے کم از کم ایک مرتبہ حج بیت اﷲ اور پیارے پیارے نبی ﷺ کے روضہ مبارک پر حاضری کی سعادت حاصل ہو ۔ اسے بھی اﷲ کے مہمانوں (ضیوف الرحمن ) کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز مل جائے ۔ وہ بھی کعبۃ اللہ کا غلاف پکڑے ، حجر اسود کو بار بار چوم کر ، حطیم میں نوافل ادا کرکے ، مقام ابراہیم کی زیارت کرتے ہوئے رب کعبہ سے اپنا گناہوں کی معافی مانگے ، اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ذریعہ اپنے رب کو راضی کرے ، کعبۃ اﷲ کے سامنے چیخ چیخ کر روئے ، اپنی سیاہ کاریوں کی معافی طلب کرے اور کہے یارب ذوالجلال تو نے ہمیں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت دولت ایمان ہے ۔ تونے ہمیں اپنے حبیب پاک ﷺ کی اُمت مبارکہ میں پیدا کیا جو مجھ جاہل مجھ ناسمجھ اور مجھ بھٹکے ہوئے کیلئے دین و دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ہے ۔ اعزاز اس لئے کہ تونے صرف اور صرف اپنے فضل و کرم سے ہمارے اذہان و قلوب میں پیارے نبی ﷺ کی محبت بھردی۔ یااﷲ ! بے شک ہم گناہگار ، سیاہ کار ، بدکار ہیں لیکن تیری رحمتوں ، تیری برکتوں ، تیری نوازشوں ، تیری نعمتوں کی کوئی حد نہیں ، کوئی سرحد نہیں ، کوئی وسعت نہیں اور تو رحیم و کریم ہے ، تو رحمان ، تورحیم تو ہی ملک القدوس ، تو ہی پاک ہے ، امن و سلامتی کا چشمہ ہے ، اپنے بندوں کو اپنے امن و امان میں رکھنے والا ، حفاظت کرنے والا ، بادشاہوں کا بادشاہ ہے ۔ تو ہی ہرچیز پر غالب ہے ، سارے جہانوں میں تیری عظمت و کبریائی ہے ۔ تو ہی ہرچیز کو وجود بخشنے والا ، ہرچیز کا پیدا کرنے والا ، مخلوقات کی صورت گری کرنے والا ہے ۔ اپنے بندوں کی غلطیوں ، گناہوں کو درگذر کرنے والا ، ہرچیز پر قادر ، ہرچیز پر اختیار رکھنے والا ، بخشنے والا ہے ، توہی حاجت روا ، تو ہی مشکلات کو حل کرنے والا ہر شئے پر تیرا ہی قبضہ تو ہی وسعت دینے والا ، تو ہی پست کرنے اور بلندی عطا کرنے والا ، تو ہی عزت کا دینے والا ، ذلت کا دینے والا بھی تو ، بندوں کی سننے والا ، ہرچیز پر نظر رکھنے والا ، سب سے بڑا انصاف کرنے والا ، تو ہی عدل کرنے والا ہے ، تیری بردباری کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ اے بزرگی والے میرے رب تو ہی عظیم ہے ، توہی سب کا محافظ ہے ۔ اے رزق عطا کرنے والا ، اے بلند رہنے والے میرے رب تو میرا نگہبان ہے ، توہی دعاؤں ، التجاؤں کو قبول کرنے والا ہے ۔ تو ہی حامی ، توہی ناصر تو ہی موت و حیات کا دینے والا ۔ تو ہی کارساز ، تیری طاقت و قوت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکتا ۔ تو ہی تعریف کے لائق ہے ۔ سب فنا ہونے والے ہیں اور تیری ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔ توہی واحد اور تو ہی احد ہے ، عظمت و جلال اور انعام و اکرام والے میرے رب ، اے نفع پہچانے والے میرے اﷲ میں تیرے دربار میں حاضر ہوا ہوں مجھے بخش دے ۔ میرے گناہوں کو معاف فرما ۔ میں نادم ہوں ، بڑا شرمندہ ہوں لیکن تیری رحمت سے مایوس نہیں۔ اے تواب الرحیم میری توبہ قبول فرما اور مجھے تیرے ان بندوں میں شامل رکھ جن پر تیرا انعام ہے ، جنھیں حوض کوثر پر تیرے حبیب پاک ﷺ کے دست مبارک سے پانی پینا نصیب ہوگا ۔
قارئین اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اور میری اہلیہ کو اپنے اُن 20 لاکھ سے زائد خوش نصیب بندوں میں شامل رکھا جنھیں جاریہ سال حج کی سعادت نصیب ہوئی اور حضور پاک ﷺ کے روضہ مبارک پر حاضری کا شرف عطا کیا گیا ۔ ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی حب نبی ﷺ سے معطر فضاء سے اپنے وجود کو سیراب کرنے کا موقع ملا ۔ ہم نے حرمین شریفین اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں جن نورانی مناظر کا مشاہدہ کیا اور ان مشاہدات نے ہمارے اذہان وقلوب اور روح پر جو اثرات مرتب کئے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک بات بناء کسی ہچکچاہٹ سے کہی جاسکتی ہے کہ حرمین شریفین کے انتظامات لاکھوں عازمین و معتمرین کی مہمان نوازی ، اُنھیں حرمین شریفین کے اندر اور باہر جو غیرمعمولی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں وہ کسی حکومت کے بس کی بات نہیں بلکہ غیبی مدد کے نتیجہ میں ہی یہ ممکن ہوتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 22 جون کو حیدرآباد ایرپورٹ سے جدہ کیلئے وستارا ایرویز کے ذریعہ روانگی عمل میں آئی ۔ حیدرآباد میں تلنگانہ ریاستی حج کمیٹی نے اپنے عازمین کے لئے بہتر انتظامات کئے ۔ ہماری پرواز حیدرآباد سے روانہ ہوئی اور مسقط میں ایک گھنٹہ توقف کے بعد جدہ انٹرنیشنل ایرپورٹ پہنچی چونکہ تمام عازمین احرام باندھے ہوئے تھے اس لئے اُن کے قلوب میں یہی تمنا بار بار اور پوری شدت کے ساتھ کروٹ لے رہی تھی کہ جلد سے جلد اپنی منزل مقصود یعنی حرم شریف پہنچیں۔
جدہ انٹرنیشنل ایرپورٹ پر وہاں کے اسٹاف نے بڑے پرتپاک انداز میں عازمین کا استقبال کیا اور پھر رات دیڑھ بجے عزیزیہ میں واقع بلڈنگ نمبر 299 تک بسوں کے ذریعہ پہنچایا گیا ۔ صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اولین صبح ہی حرم شریف کیلئے روانہ ہوگئے کیوں کہ جمعہ کا دن تھا ایسے میں 7 بجے ہی بذریعہ ٹیکسی حرم شریف پہنچے اور پھر ہم نے اپنی گناہگار آنکھوں سے کعبۃ اﷲ کو دیکھا ، ہمارے جسم پر اپنے رب کے جاہ و جلال کا تصور کرتے ہی لرزہ طاری ہوگیا ، وجود کانپنے لگا ، آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ۔ بس زبان سے یا اﷲ ! یا اﷲ ! تیرا شکر ہے جیسے الفاظ ادا ہورہے تھے اور آنکھوں سے آنسو روں تھے ، ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے آنسوؤں کو زبان آگئی ہو اور وہ رخساروں پر بہتے ہوئے اﷲ سے فریاد کررہے ہوں کہ اے میرے رب مجھے معاف کردے ، میری لغزشوں کو درگذر فرما ۔ اپنے گھر تک بلالیا ہے تو اب میری لاج بھی رکھ لے ۔ بہرحال اپنے رب کے حضور کافی دیر تک رونا گڑگڑانا ہوا اور ایسے لگا جیسے سارا وجود ایک بہت بڑے بوجھ سے ، بہت بڑے وزن سے آزاد ہوگیا ہو ۔ ایک طرف آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، دوسری طرف اپنے مرحوم والدین کا خیال بھی آرہا تھا کہ کاش وہ اس عظیم موقع پر ہمارے ساتھ ہوتے اور اُن کی موجودگی کے باعث ہم مزید اجر و ثواب کے حقدار ہوتے ۔( اے اﷲ ہمارے مرحوم والدین کی مغفرت فرما ۔ آمین )
اﷲ کا شکر ہے کہ منیٰ ، عرفات ، مزدلفہ پھر مزدلفہ سے منیٰ واپسی ، غرض تمام مناسک حج ادا کئے اور اﷲ عزوجل نے قدم قدم پر ہماری مدد کی ۔ سب سے اچھی بات یہ رہی کہ مکہ مکرمہ میں عزیزیہ کی جس بلڈنگ نمبر 299 میں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا وہاں عازمین کو سہولتیں بہم پہنچانے کی بھرپور کوشش کی گئی جس کیلئے ریاستی حج کمیٹی اور ہندوستانی حج مشن کی ستائش کی جانی چاہئے ۔
ہم نے حرمین شریف میں دیکھا کہ توسیعی منصوبہ پر کام کا سلسلہ جاری ہے ۔ صبح 7 بجے ہزاروں کی تعداد میں مزدور آتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنا کام کرکے روانہ ہوجاتے ہیں ۔ ٹرانسپورٹیشن کا جو سسٹم ہے وہ بھی مثالی ہے ۔ سعودی حکومت اور سعودی وزارت حج وغیرہ نے حمل و نقل کے بہترین انتظامات کئے تھے ۔ 24 گھنٹوں میں ہر دو منٹ ، پانچ منٹ بعد عازمین کو حرم شریف لے جانے کیلئے بس آیا کرتی تھی ، حد تو یہ ہے کہ اگر ایک عازم بھی ہو تب بھی اسے بس کے ذریعہ حرم شریف پہنچایا جاتا ۔ اگر آپ کو زندگی میں کبھی مکہ مکرمہ سے شہر رسول ﷺ مدینہ منورہ جانے کا موقع نصیب ہو تو ہمیں یقین ہے کہ آپ ضرور یہ سوچنے کیلئے مجبور ہوجائیں گے کہ اسلام مکہ کی سنگلاخ پہاڑیوں وادیوں تاحد نگاہ پھیلے ہوئے ریگستانی علاقوں اور انسانی وجود کو جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود کیسے ساری دنیا میں پھیل گیا۔ کس طرح دین اسلام نے اپنی روشنی اپنے نور سے دنیا کے کونے کونے کو منور اور اپنی خوشبو سے معطر کردیا ۔ کیسے اُس دور کی ایران اور روم جیسی سوپر پاورس مجاہدین اسلام کے ہاتھوں شکست و ناکامی و نامرادی و ذلت سے دوچار ہوئے ۔
اب جبکہ ہم 1445 ہجری میں ہیں دنیا یہ تسلیم کررہی ہے کہ اس کرہ ارض کا مرکز و منبع کعبۃ اﷲ ہے اور طواف کعبہ کے جاری و ساری اور وہاں ہونے والی نمازوں کے نتیجہ میں ہی دنیا کا وجود باقی ہے ۔ ہم نے آپ کو سطور بالا میں مسجد الحرام کے توسیعی پراجکٹس کے حوالے دیئے ہیں اور حمل و نقل کے بارے میں بتایا یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ سعودی ریلویز کی ہائی اسپیڈ ٹرینس نے حج سیزن کے دوران لاکھوں عازمین کی خدمات انجام دیں جبکہ مکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹرس کا ٹی وی مانیٹرنگ روم 24 گھنٹے چوکس ررہتا ہے جو یقینا غیرمعمولی سکیورٹی انتظامات کی ایک بہترین مثال ہے ۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ مکہ معظمہ کے داخلی راستوں اور وسطی علاقہ کے مختلف مقامات پر ہزاروں کیمرے نصب کئے گئے جن کے ذریعہ ٹریفک اور ہجوم پر نظر رکھی جاتی ہے ۔ حکومت نے عازمین کی سہولت کی خاطر زیرزمین سرنگیں اور اوورہیڈ برجس تعمیر کئے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مسجد الحرام 356000 مربع میٹر (88 ایکڑ رقبہ ) پر محیط ہے اور وہاں فی الوقت 2.5 ملین مصلیوں ؍ عازمین کی گنجائش ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ آل سعود کی حکمرانی میں حرم شریف کی پہلی توسیع شاہ سعود بن عبدالعزیز آل سعود کے دور حکومت 1955 سے شروع ہوئی اور 1973 ء تک جاری رہی اس وقت مسجد الحرام 27000 مربع میٹر رقبہ پر محیط تھی جس میں توسیع کرکے 152000 مربع میٹر رقبہ کردیا گیا ۔ اس طرح یہاں بہ یک وقت 5 لاکھ مصلیوں کی گنجائش پیدا کی گئی ۔ دوسری توسیع شاہ فہد کے دور میں 1984 ء میں اور تیسری توسیع 2010 ء میں شروع کی گئی جس کا سلسلہ اپریل 2022 ء تک جاری رہا ۔