سلطنت آصفیہ کی نشانیوں کو ختم کرنے حکومت کی پہل

   

تاریخی عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے تلنگانہ حکومت کا حلف نامہ

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔30۔جولائی ۔چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی آندھرائی نشانیوں کے خاتمہ کی جدوجہد اقتدار کے حصول کے بعد سلطنت آصفیہ کی نشانیوں کو مٹانے کی مہم میں تبدیل ہوچکی ہے اور تلنگانہ کی تشکیل کے بعد ریاست سے آندھرائی غلبہ تو ختم نہیں ہوپایا لیکن سرکاری سرپرستی میں سلطنت آصفیہ کی نشانیوں کو ختم کیا جانے لگا ہے اور اب حکومت نے عدالت میں عثمانیہ دواخانہ کو منہدم کرنے کے فیصلہ کے متعلق حلف نامہ داخل کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ سلطنت آصفیہ کی نشانیوں کے خاتمہ کے لئے بالواسطہ طور پر کام کر رہے ہیں۔نئے سیکریٹریٹ کی تعمیر کے نام پر سیف آباد پیالس کو مکمل طور پر منہدم کردیا گیا جبکہ آندھرائی حکومتوں نے ممکنہ حد تک اس پیالس کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن تشکیل تلنگانہ کے بعد سیکریٹریٹ کی تعمیر کے نام پر سیف آباد پیالس کو منہدم کردیا گیا اسی طرح ایرم منزل کو منہدم کرتے ہوئے نئی اسمبلی کی عمارت بنانے کی کوشش کی جار ہی تھی لیکن 17 ستمبر 2019 کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے اس عمارت کو منہدم نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے اسے محفوظ کردیا لیکن اس عمارت کی تزئین یا آہک پاشی کے اقدامات کا ابھی تک آغاز نہیں کیا گیا اور اب حکومت کی جانب سے عدالت میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ حکومت نے عثمانیہ دواخانہ کی عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلہ کو کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے دونوں شہروں حیدرآباد کو سکندرآباد کو پانی سربراہ کرنے والے ذخائر آب حمایت ساگر و عثمان ساگر کو تباہ کرنے کے لئے جی او111 کی برخواستگی کا فیصلہ کیاگیاہے۔حکومت کے ان فیصلوں کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ منظم انداز میں آصفیہ دور کی نشانیوں کو مٹانے میں مصروف ہیں۔دواخانہ عثمانیہ کو منہدم کرنے کے لئے چیف منسٹر نے ان کے ذہن میں جاری منصوبہ کا اظہار سال2015 میں کئے گئے دواخانہ عثمانیہ کے دورہ کے دوران ہی کردیا تھا اور اس کے بعد مسلسل توجہ دہانی کے باوجود دواخانہ کی تاریخی عمارت کے تحفظ کے سلسلہ میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے لیکن اب اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے ۔ گذشتہ دنوں ہونے والی بارشوں کے دوران چارمینار کے دامن میں موجود صدر شفاء خانہ یونانی و نظامیہ طبی کالج یونانی کی عمارت بھی مخدوش ہونے کی توثیق ہوئی ہے اور اس عمارت کے تحفظ کے سلسلہ میں کاروائی کے بجائے ان شکایات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس عمارت کو بھی مخدوش قرار دیتے ہوئے منہدم کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے سلطنت آصفیہ کے دور سے جن ذخائر آب عثمان ساگر و حمایت ساگر سے پانی کی سربراہی کو محدود کرتے ہوئے مشن بھاگیرتا کے ذریعہ پانی کی سربراہی اور کرشنا واٹر کی سربراہی کو وسعت دینے کے اقدامات تیز کئے گئے ہیں جو کہ دو ر آصفیہ کی ان نشانیوں کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔جدوجہد تلنگانہ کے دوران تلنگانہ راشٹر سمیتی نے کاسو برہمانند ریڈی پارک (کے بی آر پارک)کے نام کو مٹانے اور آنجہانی چیف منسٹر کاسو برہمانند ریڈی کے نام کو تبدیل کرتے ہوئے اسے آصفیہ پارک سے موسوم کرنے کا اعلان کیا تھا اور نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کے سانحہ ارتحال کے بعد اس پارک کو ان کے نام سے موسوم کرنے کی نمائندگی بھی کی گئی تھی لیکن چیف منسٹر نے اسے بھی فراموش کردیا ۔چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ جدوجہد تلنگانہ کے دوران نظام اور ان کے طرز حکمرانی کی ستائش کرتے رہے اور حصول تلنگانہ کے بعد سے ریاست میں موجود سلطنت آصفیہ کی نشانیوں کو مٹانے کے اقدامات میں مصروف ہیں۔قوانین کے مطابق کسی بھی علاقہ میں درج فہرست ثقافتی ورثہ کو منہدم کرنے کے فیصلہ کا اختیار حکومت کو نہیں ہے بلکہ حکومت کو اس کے تحفظ کے اقدامات کرنے چاہئے ۔