سلمان خورشید کی نینی تال رہائش گاہ پر بجرنگ دل کا حملہ

,

   

دہرادون ؍ نینی تال: اُتراکھنڈ کے نینی تال میں کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی رہائش گاہ پر پیر کو پتھراؤ اور آتشزنی کے واقعہ نے انتظامیہ میں ہلچل مچا دی۔نینی تال پولیس اسٹیشن رام گڑھ کے ایس ایچ او محمد عارف نے بتایا کہ بجرنگ دل کے 20 سے زیادہ کارکنوں پر مشتمل ہجوم نے سلمان خورشید کی رہائش گاہ میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی۔ انہوں نے خورشید کے نگران سندر رام کے حوالے سے بتایا کہ دوپہر 2 بجے کے قریب 20 سے زیادہ لوگ آئے اور گھر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مکینوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔ انہوں نے کہا کہ ملزم وہاں سے فرار ہوگئے، پولیس اب بھی تلاش کر رہی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق علاقے میں گولیاں بھی چلائی گئیں جس کے باعث لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔قابل ذکر ہے کہ سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اپنی کتاب ’سن رائز اوور ایودھیا‘ میں ہندوتوا کا موازنہ دہشت گرد تنظیموں آئی ایس آئی ایس (داعش ) اور بوکو حرام سے کیا ہے اور ہندوتوا کی سیاست کو خطرناک قرار دیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں اُن کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کتاب کی حال میں رسم اجرائی عمل میں آئی تھی۔ زعفرانی تنظیموں کے کارکنوں نے خورشید کی قیامگاہ میں توڑ پھوڑ کے ساتھ دروازوں کو آگ لگا ئی۔ حملہ آوروں نے سلمان خورشید کا علامتی پتلہ بھی نذر آتش کیا۔ خورشید نے اس واقعے کی ویڈیوز اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیں۔ انہوں نے اس واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا میں نے جو کہا وہ غلط ہے؟اس دوران ڈی جی آئی نیلیش آنند نے کہا کہ خورشید کے گھر پر حملے کے سلسلے میں راکیش کپل اور دیگر 20 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔دریں اثناء کانگریس ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے پارٹی ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جس پارٹی یا تنظیم کے لوگ تشدد کر رہے ہیں وہ غلط ہے اور اسے کسی بھی طرح سے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔کانگریس لیڈر سلمان خورشید کے خیالات سے خود کو الگ رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں ان کے خیالات، ان کی اصطلاحات یا ان کی سوچ سے متفق ہوں یا نہیں، اس کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن کسی کے فعل پر تشدد سے کام لینا یا اُس پر زبردستی کرنا اوچھاپن ہے اور یہ واقعی اس پارٹی کی چال، کردار اور چہرے کو بے نقاب کرتا ہے جس کا نام لیا جا رہا ہے۔