محمد مصطفی علی سروری
محمد شریف الدین خانگی ملازم تھے۔ محدود آمدنی تھی ہاتھ روک کر گھر کے اخراجات پورے کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے گھر بیٹیاں بھی ہیں اور بیٹیوں کی شادی بھی کرنی ہے اور اس شادی کے لیے انہیں رقم بھی جمع کرنی ہے۔ ادھر ماہانہ تنخواہ میں تو خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا تھا لیکن گھر کے اخراجات تھے کہ بڑھتے ہی جارہے تھے۔ صرف گھر کے اخراجات ہی نہیں ان کی بیٹیاں بھی بڑی ہو رہی تھیں۔ تبھی تو کوئی بھی رشتہ دار ان کے گھر آتا تو خیر خیریت کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھنا ضروری سمجھتا کہ کیا شریف صاحب ماشا ء اللہ آپ کی لڑکیاں تو بڑی ہوگئی ہیں۔ کب کر رہے ہیں ان کی شادیاں؟ وہ جواب دیتے کہ ارے میری بچیوں کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔ ابھی تو وہ پڑ رہی ہیں تو اگلا جواب ملتا کہ ارے بھائی پڑھا لکھا کر کرنا کیا ہے۔ آخر تو لڑکیوں کی اصل ذمہ داری ان کی شادی کروانا ہے۔
اب شریف صاحب کیا بولتے ان کو اور ان کی بیوی کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ لڑکیاں بڑی ہو گئی ہیں۔ ان کی شادی کرنا ضروری ہے لیکن ایک غریب کے لیے اگر وہ خوددار بھی ہو تو بچیوں کی شادی کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ بمشکل دیڑھ لاکھ روپئے تو شریف صاحب نے جمع کر رکھے تھے لیکن قسمت خراب رہی تو کیا کریں۔ ایک دن اپنے محلے میں کسی جاننے والے کے ساتھ کھڑے بات کر رہے تھے کہ محلہ کا ہی ایک لڑکا ٹووہیلر گاڑی سیکھنے کی چکر میں ان کو ایسی بری طرح ٹکر ماردی کہ پائوں پر پلاسٹر چڑھاکر رکھنا پڑا اور چھ مہینے کے علاج میں 75 ہزار روپئے غیر ضروری خرچ ہوگئے۔ ٹکر مارنے والے لڑکے کے والد نے شریف صاحب کو ہی حادثہ کا ذمہ دار قرار دے کر الزام لگادیا کہ بچہ تو گاڑی صحیح چلارہا تھا وہی عین سڑک پر کھڑے تھے۔ یوں اب شریف صاحب کے پاس جملہ بجٹ کی رقم 75 ہزار ہی بچی تھی اور پھر ایک دن شریف صاحب کی دور کی خالہ ساس نے ایک رشتہ ان کی لڑکی کے لیے لایا۔ بات آگے بڑھی اور پھر رشتہ طئے ہوگیا۔ مگر شریف صاحب کا مختصر بجٹ دیکھ کر بھی لڑکے والوں نے شادی کا بجٹ کم کرنے سے منع کردیا۔ کہنے لگے کہ گھر کا پہلا لڑکا ہے اور زندگی میں شادی ایک بار ہی تو ہوتی ہے۔ اس لیے شادی تو معیاری ہی ہوگی۔ البتہ لڑکے کے والد نے شریف صاحب کو ایک پہچان والے فینانسر سے کم سود پر قرض دلانے کا یقین دلایا۔ شریف صاحب کی بیوی اور خالہ ساس کا اصرار تھا کہ لڑکے کا رشتہ اتنا اچھا ہے کہ اس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے۔ جب لڑکے والے فینانسر سے آسان شرائط پر قرضہ بھی دلا رہے ہیں تو پھر نہیں بولنے کا سوال ہی نہیں۔
کچھ رقم تو شریف صاحب نے اپنے رشتہ داروں سے جمع کی اور پھر شادی کا کھانا، جہیز کا سامان، جوڑے کی رقم اور دولہے کے لیے گاڑی کا انتظام کیا۔ صرف گاڑی کے لیے 75 ہزار روپئے خرچ ہوگئے۔ سونا، پہننے کے کپڑے، بستر اور ضرورت کا سارا سامان جمع کر کے شریف صاحب نے لڑکے والوں کی حسب فرمائش اپنی لڑکی کی شادی ربیع الاول کے مہینے میں ہی کردی۔ گھر کے کاموں کی تھکن ایسی تھی کہ دو تین دن تو تھکن کے مارے نیند لگ ہی جاتی تھی لیکن اس کے بعد دن ہو رات شریف صاحب صرف یہ سونچ کر ہی پریشان ہو رہے تھے کہ اب وہ سود پر لیے گئے قرضوں کی اقساط کیسے چکائیں گے۔
مندرجہ بالا شریف صاحب کے قصے میں ان کا نام تو فرضی ہے مگر بقیہ بہت ساری تفصیلات حقیقی واقعات سے ماخوذ ہیں۔
21؍ نومبر 2019ء کے حیدرآباد کے اخبارات میں جرائم کے کالم میں ایک خبر شائع ہوئی جس کی سرخی تھی ’’لڑکی کی شادی کے 5 دن بعد والد کی خودکشی‘‘ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ 14؍ نومبر کو لڑکی کی شادی ہوئی تھی۔ اس شادی کے لیے لڑکی کے والد نے کئی لوگوں سے قرضہ لیا تھا۔ قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں لاحق خوف کے باعث لڑکی کے والد نے اپنے مکان میں کمرہ بند کرنے کے بعد سیلنگ فیان سے لٹک کر خود کشی کرلی۔ مختلف اخبارات نے کنچن باغ، بہادر پورہ پولیس کے حوالے سے اس خبر کو الگ الگ طرح سے شائع کیا۔ مگر ہر خبر میں یہی نکتہ تھا کہ قرضوں کی واپسی کو لے کر لڑکی کے والد طرح طرح کے خدشات میں مبتلا تھے اور بالآخر انہوں نے پھانسی لے کر خود کشی کرلی۔
21؍ نومبر کے ہی اخبارات میں خبر رساں ادارے یو این آئی کی جانب سے جاری کردہ ایک اور خبر بھی شائع ہوئی۔ لکھنؤ سے جاری ہونے والی اس خبر میں بجاج فینانشیل سرویسز کے حوالے سے بتلایا گیا کہ اب شادی بیاہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے خانگی مالیاتی کمپنی قرضے جاری کرے گی۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ شادی قرض کے مد میں 25 لاکھ کی حد تک ذاتی قرض دیا جائے گا۔ اس قرض کا استعمال کیٹرنگ سرویس سے لے کر مقام تقریب کو سجانے اور تو اور ہنی مون کے اخراجات بھی اس قرضے سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔قارئین اگر ہم ہمارے سماجی مسائل کو بحیثیت ذمہ دار شہری پورا کرنے کے لیے آگے نہیں آئیں گے تو بازار اور بازاری طاقتیں سماجی مسائل کو حل نہیں کریں گے وہ تو ہر صورت حال میں منافع کیسے کمائیں اس کا منصوبہ بنائیں گے۔
22؍ نومبر 2019ء کے اخبار ٹائمز آف انڈیا، حیدرآباد نے ایک خبر شائع کی جس کی سرخی میں لکھا تھا کہ 2 Docs held for sex determination test” خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ پولیس چیتنیہ پوری نے رنگا ریڈی ڈسٹرکٹ میڈیکل اینڈ ہیلتھ آفس (DMHO) کی شکایت پر ایک تین رکنی ریکٹ کو بے نقاب کیا اور دو ڈاکٹروں کے بشمول ایک آٹو ڈرائیور کو بھی گرفتار کرلیا۔ خبر میں وضاحت کی گئی کہ عطا پور کے ایک خانگی دواخانے سے وابستہ دو ڈاکٹرس سرلا اور عائشہ فاطمہ ایک موٹی رقم لے کر پیدائش سے قبل ہی حاملہ خواتین کی جانچ کر کے انہیں اس بات سے آگاہ کرنے کا کام کر رہے تھے۔ کہ ماں کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور جب لڑکی کا پتہ چلتا تو یہ دونوں خاتون ڈاکٹرس مبینہ طور پر لڑکی کو ماں کے پیٹ میں ختم کرنے کے کام میں مدد بھی کر رہے تھے۔
قارئین یہ خبر کسی دور افتادہ گائوں دیہات کی نہیں بلکہ شہر حیدرآباد کے ہی قریبی علاقے سے رپورٹ ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پروگرام بنائے جاتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے لڑکیوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن لوگوں کے رویہ کو بدلنے کے لیے کوئی کیا کرے۔ کیا کسی نے غور کیا ہے کہ آخر ماں باپ لڑکی کو پیدائش سے پہلے ہی اس کی جنس کا پتہ لگاکر ختم کیوں کردینا چاہتے ہیں۔
لڑکیاں اگر پیدا بھی ہوجائیں تو ان کو لے کر والدین ہر لمحہ فکروں میں گھرے رہتے ہیں۔ اس کے لیے کیا والدین کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ غریب لڑکیوں کے سرپرست چار لوگوں کے آگے درخواست رحم پیش کر کے مالی امداد مانگنے تیار ہیں اور جس کے ساتھ لڑکی کو زندگی گذارنا ہے وہ کم جہیز اور بغیر کھانے کے شادی کے لیے تیار نہیں۔ اس طرح کے دوغلے پن کی زندگی گذارنے والے جب لڑکی کی شادی کے پانچ دن بعد ہی باپ کی خود کشی کا واقعہ سامنے آنے پر افسوس ظاہر کرتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے۔ خانگی فینانسر سے قرضے لے کر شادی کرنے کو برا نہ ماننے والے جب بجاج کمپنی کی جانب سے شادی کے قرضوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں تو میرا دل سونچتا ہے کہ ہم مسلمان کب اس بات کو عملی طور پر سمجھ سکیں گے کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنی زندگی اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اس رب کائنات کے بنائے ہوئے اصولوں سے گذارنے کے پابند ہیں جس پر ہم لا الہ الا للہ محمد الرسول اللہ کہہ کر ایمان لایا تھا۔
اللہ رب العزت نے اپنے نبی پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ سارے عالم کے لیے جو پیغام بھجوایا تھا اس پر مکمل طور پر مسلمانوں کو بھی عمل کرنا ہے اور ساتھ ہی آخری نبیؐ کے امتی ہونے کے ناطے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ نبیؐ کا یہ فرمان آخر ہمارے دلوں کو چین اور سکون کیوں نہیں دیتا کہ جو شخص دو یا تین لڑکیوں کی سرپرستی کرے گا وہ بہشت میں میرا ہم نشین ہوگا۔کیونکہ جب ہم دین اسلام کی تعلیمات سے دوری اختیار کرتے ہیں تب ہمیں جہیز کے نام پر بھاری رقومات طلب کرنا بھی برا نہیں لگتا ہے۔ جہیز کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے سود پر قرضہ لینا بھی خراب محسوس نہیں ہوتا اور پیسے کمانے کے لیے ماں کے پیٹ میں بیٹی کو مارنے کے کام میں مدد کرنا بھی پروفیشن نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہم پر رحم فرمائے ورنہ ہم تو …بقول شاعر
سماج سارا سوگیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر
سپرد خاک ہوگیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو نبیؐ کی سچی تعلیمات سمجھنے والا اور ان پر عمل کرتے ہوئے نبیؐ کی سیرت کا عملہ نمونہ پیش کرنے والا بنادے اور آخری نبیؐ کے امتی ہونے کے ناطے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنے والا بنا۔ آمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]