سندھیا ۔ کانگریس داخلی خلفشار کا شکار

   

راج دیپ سردیسائی
لوک سبھا انتخابات 2019ء میں کانگریس کو شکست فاش ہوجانے کے فوری بعد جیوتیر آدتیہ سندھیا نے بتایا جاتا ہے ایک کانگریس ورکنگ کمیٹی میٹنگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے احتساب کی ضرورت ظاہر کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) جیسی 21 ویں صدی کی سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے ’’مستقبل کیلئے تیار‘‘ بننا پڑے گا۔ سندھیا کی تشویش و فکرمندی پر پارٹی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ کے اندرون خاموشی چھائی رہی۔ نو ماہ بعد خاموشی ٹوٹ گئی: سندھیا نے پارٹی چھوڑ دی اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی، جو مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کو گرانے کا منصوبہ بند اقدام معلوم ہوتا ہے۔ سندھیا کے اقدام کو عصری سیاست کی غیرنظریاتی نوعیت کی ایک اور مثال قرار دینا آسان رہے گا، جہاں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈہ کے خلاف کبھی سخت جنگجو رہنے والے یکایک زعفرانی نظریہ کے دامن میں گرپڑتے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ خطوطِ سرخ جو ’’سکیولر‘‘ سیاست کے بارے میں کھینچی گئی تھیں، اب بالکلیہ دھندلی ہوچکی ہیں۔ اس میں بھی شاید کچھ شبہ ہے کہ سندھیا کا پارٹی چھوڑنے کے فیصلہ کا وقت راجیہ سبھا الیکشن شیڈول کے ساتھ ساتھ آیا اور یہ فیصلہ جزوی طور پر 49 سالہ لیڈر کے عزائم پر مبنی ہے۔ انھوں نے 2019ء میں اپنی لوک سبھا نشست ہارنے کے بعد خود کو ریاستی اور قومی سیاست میں بتدریج حاشیہ پر ہوتے پایا اور جنھیں 2018ء میں ایم پی کی وزارت ِ اعلیٰ کیلئے دوڑ سے باہر کیا گیا تھا۔

جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ بی جے پی کا ساتھ اختیار کرنے کے عوض میں وزارتی فائدہ کی کشش کو ٹھکرانا شاید ممکن نہ ہوا۔ لیکن کیا صرف انفرادی عزائم ہی کانگریس کی اگلی نسل کے نمایاں لیڈر کی اس قدر ڈرامائی انداز میں وفاداری بدلنے کے فیصلے کی وضاحت کرسکتے ہیں؟ سچائی یہ ہے کہ سندھیا کا کانگریس چھوڑنا ایسی پارٹی کی مشکل کو پیش کرتا ہے جو اندرونی خلفشار سے دوچار ہورہی ہے۔ اگر 2014ء کی شکست قرین قیاس تھی، تو 2019ء کی لوک سبھا انتخابی ناکامی نے ٹھوس سیاسی قوت کی حیثیت سے کانگریس کی بالکلیہ ہزیمت کا اشارہ دیا۔ 192 نشستوں پر جہاں بی جے پی اور کانگریس کا راست مقابلہ ہوا، اول الذکر نے چند نہیں بلکہ 175 نشستیں 23% کے اوسط فرق سے جیت لئے۔ حالیہ دہلی الیکشن جہاں 66 کانگریس امیدواروں میں سے صرف تین اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب ہوئے، مزید ثبوت ہے کہ کسی دور کی طاقتور غالب قوت پوری طرح پگھل چکی ہے۔

جب راہول کی جگہ علیل سونیا گاندھی نے اگست 2019ء میں عبوری صدر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی، اس سے محض تصدیق ہوئی کہ پارٹی کا مستحکم گروہ ہنوز پارٹی کی فرسٹ فیملی سے آگے دیکھنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس فیملی نے بلاشبہ پارٹی کو کمتر مشکل وقتوں میں یکجا رکھا ہے، لیکن زیادہ مشکل اور مسابقتی ماحول میں ایسا لگتا ہے کہ وہ آرگنائزیشن کی متحد و مضبوط یونٹ کے طور پر پیشرفت کو یقینی بنانے سے قاصر ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پارٹی کا ڈھانچہ دھیرے دھیرے گھلتا جارہا ہے جہاں ہمہ جا موجود ’’ہائی کمان‘‘ نہ صرف اپنے ورکرز سے غیرمربوط ہے، بلکہ خود اپنے لیڈروں سے بھی رابطے میں نہیں ہے۔

مدھیہ پردیش اچھی مثال ہے۔ کمل ناتھ چیف منسٹر اور سربراہ پردیش کانگریس کے طور پر دہرا رول نبھاتے رہے، اور ڈگ وجئے سنگھ نے دو مرتبہ کے سابق چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنا سیاسی قد مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز رکھی، کانگریس نے ایسی راہ منتخب کی جہاں نام نہاد ’’سینئر لیڈرشپ‘‘ نے ریاست میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرلی۔ اس صورتحال نے سندھیا جیسے قائدین کو مسلسل مایوس کیا اور وہ سحر سے باہر نکل آئے، بالخصوص ایسے وقت جبکہ کمزور ہائی کمان مداخلت کرنے اور ناراض قائدین کے مفادات کا بھی تحفظ کرنے کے اب قابل نہیں رہی ہے۔
جو کچھ مدھیہ پردیش کی حقیقت ہے، وہی پڑوسی راجستھان کیلئے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ وہاں بھی اگلی نسل کے لیڈر سچن پائلٹ کو تحکم آمیز اشوک گہلوٹ کے ذریعے حاشیہ پر کیا گیا ہے، جو پرانی کانگریس کے ایک اور کٹر نمائندہ ہیں۔ سندھیا اور پائلٹ دونوں کے پاس بھلے ہی اپنی پیشرو نسل کے قائدین کا سیاسی وزن نہ ہو، جن کو بنیادی سطح سے مضبوط تعلق رکھنے والے لیڈر سمجھا جاتا ہے جن کا نٹ ورک بھی اچھا ہے؛ لیکن دونوں کے پاس عصری سیاست کی قیمتی خاصیت ہے… وہ نوجوان اور حرکیاتی قائدین ہیں، وہ رابطہ قائم کرنے میں مؤثر ہیں اور ایسی زبان بول سکتے ہیں جس سے نوجوان آبادی کی شناخت ہوتی ہو۔ اس طرح کے نوجوان، نظریاتی طور پر پابند عہد قائدین کا گروپ ہی کانگریس کو وہ کچھ دے سکتا ہے جس کی موجودہ طور پر اسے بے حد ضرورت ہے۔ اس کے اسٹائل اور کام کاج میں مکمل بہتری درکار ہے تاکہ بی جے پی کی منجھی ہوئی الیکشن مشین سے مسابقت کرسکے۔ سندھیا نے شاید اس پوری جدوجہد سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے آسان متبادل چن لیا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی؛ کانگریس کیلئے اب سوال یہ ہے کہ اس شرح پر آیا عنقریب کوئی باقی بچ رہے گا کہ اچھی طرح جدوجہد کرے؟

اختتامی تبصرہ
چھوٹی چھوٹی تاریخی باتوں سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بتادوں کہ وجئے راجے سندھیا کانگریس میں تھیں، یہاں تک کہ وہ 1967ء میں جن سنگھ میں شامل ہوئیں اور مدھیہ پردیش کی ڈی پی مشرا زیرقیادت کانگریس حکومت کو گرانے میں مدد کی تھی۔ تریپن سال بعد، تاریخ نے اُن کے پوتے کی شکل میں اپنا اعادہ کیا ہے۔
[email protected]