سوالات کے جوابکون دے گا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

حکومت نے من مانی کرتے ہوئے تین فوجداری قوانین کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ ان کے خالص ہندی اور سنسکرت نام بھی رکھے۔ یہاں تک کہ ان بلز کے انگریزی ورژن میں بھی ہندی اور سنسکرت نام ہی اختیار کئے گئے جس سے اس کی نیت اور ارادوں کا پتہ چلتا ہے ۔ چنانچہ اس بحث کے بعد کہ حزب اختلاف (اپوزیشن جماعتوں ) نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بائیکاٹ کیا ( اچھی وجوہات کی بناء پر ) انڈین پیانل کوڈ (تعزیرات ہند ) 1860 ، کریمنل پروسیجر کوڈ ( ضابطہ فوجداری) 1973 اور انڈین ایوڈنس ایکٹ 1872 کو تبدیل کرنے ( اور دوبارہ نافذ کرنے ) کیلئے تین بلز منظور کئے گئے ۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نئے بلوں کو ہندی یا سنسکرت میں نام دیئے گئے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان بلوں کے انگریزی ورژن میں بھی یہی نام ہیں۔ صدرجمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی ان بلوں کو منظوری دے دی اور حکومت نے آگاہ کیا کہ نئے قوانین یکم جولائی 2024 ء سے نافذالعمل ہوجائیں گے اور نافذالعمل ہو بھی گئے ۔ کئی گوشوں سے ان نئے قوانین کی سخت مخالفت کی گئی ۔ حکومت نے اپوزیشن کے دلائل کو غیرمتعلقہ اور محرک قرار دے کر مسترد کردیا یعنی اُس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے اعتراضات غیرواجبی ہیں اور اپوزیشن تنقید برائے تعمیر نہیں بلکہ تنقید برائے تنقید کررہی ہے ۔ اس کے ارادے اور نیک ٹھیک نہیں ہے ۔ اگرچہ حکومت نے ان بلوں پر سخت موقف اختیار کیا ہے لیکن وہ اپوزیشن کی مزاحمت کو کم نہ کرسکی ۔ دو ریاستی حکومتوں نے تو اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنے متعلقہ ریاستی مقننہ میں ان بلوں میں یقینا ترمیم کریں گی ۔ اس ضمن میں جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو کی حکومت نے بلوں میں تبدیلیوں کیلئے اندرون ماہ تجاویز پیش کرنے ایک رکنی کمیٹی مقرر کی ہے ۔ کرناٹک اور دوسری ریاستی حکومتیں بھی اسی طرح کی راہ اختیار کرسکتی ہیں ۔ ایسے میں خاص طورپر حقائق عوام کے سامنے لانا اور ان سے یہ پوچھنا ضروری ہوگیا کہ آپ لوگ ان بلوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو مرکزی حکومت نے من مانی کرتے ہوئے منظور کئے ( اکثر ماہرین قانون کے مطابق یہ تینوں بلز غریبوں ، اقلیتوں اور دلتوں کیلئے نقصاندہ ہیں ۔ ان بلز کے ذریعہ پولیس کے اختیارات میں بیجا اضافہ کیا گیا ہے ) ۔
فوجداری قانون دستور کی متوازی فہرست میں ایک موضوع ہے ۔ اس ضمن میں ایک اہم بات عرض کرنا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ دونوں اس موضوع پر قانون سازی کے اہل ہیں۔ بلاشبہ اگر پارلیمنٹ کی طرف سے بنایا گیا قانون اور ریاستی مقننہ کی جانب سے بنایا گیا قانون ناگوار ہے تو دستور کی دفعہ 254 اپنی طرف متوجہہ ہوگی تاہم یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ریاستی مقننہ کے ایک قانون بنانے کے بعد پیدا ہوگا ۔ اس میں عدم مطابقت تھی اور صدر نے ریاستی مقننہ کے منظورہ قانون کی منظوری نہیں دی ۔ دریں اثناء نئے قوانین کی مخالفت کرنے والوں کی جانب سے اُٹھائے گئے سوالات کو سننا اور اُن کا جواب دینا ضروری ہے ۔ بدقسمتی سے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ یا پارلیمنٹ کے باہر جواب دینے سے انکار کیا ہے ۔ یہاں پھر سوالات پیدا ہوتے ہیں :
.1 کیا یہ صحیح ہے کہ تین نئے قوانین کی دفعات کا بڑا حصہ ان تین قوانین سے نقل اور چسپاں ( کاپی اینڈ پیسٹ ) کیا گیا ہے جنھیں تبدیل کیا گیا تھا ؟ کیا یہ درست ہے کہ آئی پی سی اور سی آر پی سی کا 90-95 فیصد اور ایویڈنس ایکٹ کا 95-99 فیصد حصہ نئے قوانین میں برقرار رکھا گیا ہے اور ہر سیکشن کو دوبارہ نمبر دیا گیا ہے ؟ اگر چند اضافہ موجودہ قوانین میں حذف اور تبدیلیوں کی ضرورت تھی تو کیا ترامیم کے ذریعہ وہی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ کیا یہ دعویٰ کہ حکومت نے نوآبادیاتی میراث کو ختم کردیا ہے ایک کھوکھلا دعویٰ تو نہیں ؟
.2 اگر حکومت کا ارادہ فوجداری قوانین پر مکمل نظرثانی تھا تو لا کمیشن کا حوالہ دینے کیلئے وقتی طورپر قابل احترام عمل کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا لا کمیشن حکومت اور پارلیمنٹ کے غور و خوض کیلئے تمام STAKE HOLDERS سے مشورہ کرنے اور مسودہ بل کے ساتھ اپنی سفارشات پیش کرنے والا سب سے زیادہ قابل عمل ادارہ نہیں تھا ؟ لا کمیشن کو بائی پاس کیوں کیا گیا اور یہ کام ایک کمیٹی کے تفویض کیا گیا جس میں جزوقتی ارکان شامل تھے جوکہ ایک کے سواء مختلف یونیورسٹیز میں کل وقتی پروفیسرس کے طورپر خدمات انجام دے رہے تھے ۔
.3 کیا نئے قوانین فوجداری قانون کے جدید اُصولوں سے مطابقت رکھتے ہیں ؟ کیا نئے قوانین میں گزشتہ دس برسوں میں دیئے گئے تاریخی فیصلوں میں سپریم کورٹ سے وضع کردہ ترقی پسند اُصولوں کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کو شامل کیا ہے ؟ کیا نئے قوانین کی متعدد دفعات ہندوستان کے آئین کے خلاف ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ نے تشریح کی ہے ؟
.4 نئے قانون نے سزائے موت کو کیوں برقرار رکھا ہے حالانکہ سزائے موت کا جہاں تک تعلق ہے کئی جمہوری ملکوں میں سزائے موت کو منسوخ کردیا گیا ہے ۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ایک ظالمانہ اور غیرانسانی قید تنہائی کی سزا متعارف کروائی گئی ؟ ناجائز تعلقات اور مرضی سے زنا کے جرم کو فوجداری قانون میں واپس کیوں لایا گیا ہے ؟ کیا ہتک عزت کو فوجداری جرم کے طورپر برقرار رکھنا ضروری تھا ؟ دوسرے شخص کی رضامندی کے بغیر ہم جنسوں کا رشتہ اب جرم کیوں نہیں رہا ۔ کیا کمیونٹی سرویس کی سزا کی وضاحت کرنا یا کم از کم کمیونٹی سرویس کی مثالیں دینا ضروری نہیں تھا ؟
.5 آخر کیوں غداری و بغاوت کے جرم کو بڑھایا اور برقرار رکھا گیا ؟ دہشت گردی کے جرم کو عام فوجداری قانون میں کیوں لایا گیا ہے جبکہ ایک خصوصی ایکٹ ہے جسے غیرقانونی سرگرمیاں ( انسداد ) ایکٹ کہا جاتا ہے ؟ انتخابی جرائم کو نئے قانون میں کیوں شامل کیا گیا ہے جبکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے نام سے خصوصی قوانین موجود ہیں؟
.6 کیا نئے قوانین نے پولیس کو کسی شخص کو گرفتار کرنے اور اس شخص کی تحویل حاصل کرنے کیلئے زیادہ اختیارات نہیں دیئے گئے ؟ کیا قانونی حیثیت اور گرفتاری کی ضرورت کا جائزہ لینے کیلئے کسی مجسٹریٹ کو پابند کرنا ضروری نہیں تھا ، کیا ضمانت کی دفعات موثر طریقہ سے مجسٹریٹ کو گرفتاری کے بعد 40/60 دنوں کیلئے ضمانت سے انکار کرنے کا تقاضا کرتی ہیں ؟
اور بہت سے سوالات ہیں ۔ سوالات پوچھنے اور جوابات حاصل کرنے کا پلیٹ فارم کون سا ہے ؟ حکومت کی جانب سے ابھی تک کسی نے مذکورہ سوالات کے جوابات نہیں دیئے ہیں ۔