سوغاتِ مودی عرب ملکوں کو خوش کرنے کی کوشش !

   

روش کمار
آجکل مسلمانوں کیلئے مودی کی سوغات کے کافی چرچے ہیں‘ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی اور بی جے پی کو اچانک مسلمانوں کی یاد کیوں آئی اور آخر وہ مسلمانوں کو مودی کی سوغات کیوں پیش کررہے ہیں۔ یہ ایسا سوال ہے جو شائد مودی جی کے بھگت بھی اُٹھائیں گے اور وہ فرقہ پرست عناصر بھی اُٹھائیں گے جو وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ بی جے پی نے کانگریس پر ہمیشہ یہ الزام عائد کیا کہ وہ مسلمانوں کی خوشامد کرتی ہے اور اب جو بی جے پی کررہی ہے وہ کیا ہے؟ بہر حال مودی کی سوغات دراصل عید کے موقع پر بی جے پی کے قائدین ملک بھر میں 32 لاکھ غریب مسلمانوں کے گھر سوغات لے کر جارہے ہیں ( یہ سطور لکھنے تک وہ سوغات مودی پہنچا بھی چکے ہوں گے ) اسے ’ مودی کِٹ‘ کہا جارہا ہے۔ اپنے مخالفین پر Tool Kit کا فرضی پروپگنڈہ رچنے والی بی جے پی عید پر کِٹ تقسیم کررہی ہے، یہ بھی ہوگا یہ کس نے سوچا تھا۔ چھوٹی چھوٹی بوریوں میں بند کُرتا پاجامہ ، شلوار قمیض، سوئیاں‘ چینی ( شکر )، سوجی ‘ بیسن اور میوے بھر کر 32 لاکھ مسلمانوں کے گھر پہنچایا جائے گا۔ سیاست کو مارکیٹنگ کی عادت نئی تو نہیں لیکن عید کے موقع پر 32 لاکھ لوگوں کے گھر مودی کی سوغات مارکیٹنگ کی انتہا ضرور ہے۔ بی جے پی کہہ رہی ہے یہ مسلم، سکھ اور عیسائی اقلیتوں تک رسائی کا پروگرام ہے۔ عید، بیساکھی اور ایسٹر کے موقع پر تہوار کِٹ بانٹیں جائیں گے جنہیں ’ سوغاتِ مودی‘ کہا جارہا ہے۔
بی جے پی اقلیتی سیل کے صدر جمال صدیقی نے ’ دی ہندو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مارچ میں عید کے بعد 20 اپریل تک بیساکھی اور ایسٹر آنے والے ہیں اس لئے یہ کِٹ دیئے جارہے ہیں تو سب کچھ رسائی کی بات ہے۔ کارپوریٹ کا پروگرم ہے یا سیاست کا اقلیتوں تک اس رسائی میں کِٹ عقلمندی ہے یا فکری تبدیلی‘ بس سوال یہی ہے کہ کانگریس یا دوسری اپوزیشن جماعت نے ایسا پروگرام شروع کردیا ہوتا تو گودی میڈیا کے مالک نیوزروم میں اینکروں کے پاؤں پر لوٹ گئے ہوتے کہ اس پر مباحث کرو، اس دیش میں یہ کیسے ہوسکتا ہے، جتنی نفرتی باتیں کرسکتے ہو شروع کرو۔ سوچئے دس برسوں تک نفرت پھیلانے والے اینکروں کو اب اس کی بھی تعریف کرنی پڑے گی۔ اس میں وہ سیاست کی بڑائی تلاش کر نکالیں گے، یہی سب دیکھنے کیلئے آپ سب زندہ ہیں، آپ کو اپنی قسمت پر فخر کرنا چاہیئے۔ ٹھیک کانگریس نے یہی کیا ہوتا تو وزیر اعظم نریندر مودی کس طرح کے بیان دے رہے ہوتے، ان چھوٹی چھوٹی بوریوں میں رکھے سامان کا نام لے لے کر بیان دے رہے ہوتے کہ مسلمانوں کو کانگریس سوئیاں کھلارہی ہے، بیسن دے رہی ہے، مسلمانوں کو کانگریس میوے کھلارہی ہے، مسلمانوں کو کانگریس کُرتا پاجامہ دے رہی ہے، شلوار، قمیض دے رہی ہے، مسلمانوں کو سوجی اور شکر بھیج رہی ہے۔ کیا کانگریس کو مترو ہندو یاد نہیں آئے، کیا یہ تعجب کی بات ہے کہ جب مسلمانوں نے دستوری اور شہری حقوق کو لیکر احتجاج کیا تھا تو وزیر اعظم مودی نے جھارکھنڈ کی ریالی سے ان کے کپڑوں سے پہچان لینے کی بات کہی تھی۔ اب انہیں وہی وزیر اعظم کپڑے بھجوارہے ہیں۔
مودی نے جھارکھنڈ میں ایک ریالی سے خطاب میں کچھ یوں کہا تھا: ’’ بھائیو! بہنو، یہ آگ لگا رہے ہیں۔ ٹی وی پر ان کے جو مناظر آرہے ہیں یہ آگ لگانے والے کون ہیں؟ ان کے کپڑوں سے پتہ چل جاتا ہے۔ یاد تو ہوگا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیراعظم مودی مسلمانوں پر کس کس طرح کے حملے کررہے تھے، کس کی طرف ان کا یہ اشارہ رہا ہوگا کہ کانگریس ہندوؤں سے چھین کر انہیں منگل سوتر دے دیگی، ملک کی دولت زیادہ بچے پیدا کرنے والوں اور دراندازوں میں بانٹ دے گی۔ یہ اشارہ تو مسلمانوں کی طرف ہی سمجھا گیا اب انہیں گھروں میں بی جے پی کے قائدین شلوار قمیض اور میوے لیکر جائیں گے۔ آپ کبھی نہیں جان پائیں گے۔ پہلی میعاد میں وزیر اعظم نریندر مودی نے عرب ملکوں سے تعلقات بنائے، ان سے اعزازات اور تحفہ و تحائف حاصل کئے اور یہ تعلقات بہتر بھی بتائے جاتے ہیں تو کیا اب یہ سرمایہ کاری کا دوسرا مرحلہ ہے جس سے رشتہ پوری طرح تجارتی بھی لگے اور سماجی بھی‘ خاص طور سے ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سرمایہ کاری اور تجارت کیلئے چین ہی بچتا ہے اور عرب ملک جتنے جوش و خروش سے وزیر اعظم مودی عرب ملکوں کی مساجد میں چلے جاتے ہیں کیا اُمید کرسکتے ہیں کہ اب دہلی کی جامع مسجد بھی چلے جائیں گے۔
سوغات بھجوانا ذرا شاہی ہوجاتا ہے جیسے کسی راجہ کی طرف سے بھیجا جارہا ہو، اچھا ہوتا اگر وزیراعظم مودی خود سوغات لیکر جاتے اور جامع مسجد میں افطار کیلئے جمع غریب مسلمانوں میں بانٹ دیتے۔ یہ سوال تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ عرب ملکوں سے کسی ایک کو فنڈ دلانے کیلئے ماحول تو نہیں بنایا جارہا ہے یا غریب مسلمانوں کے گھروں کا اب تحفظ کیا جائے گا جن پر کبھی بھی بُلڈوزر چل جاتا ہے۔ آپ تصور کیجئے کہ اگر عید پر سوغات پہنچانے کا فیصلہ کانگریس نے کیا ہوتا تو اس وقت بی جے پی کیا کررہی ہوتی، لیکن سب سے پہلے سوچئے کہ اگر یہ سیاست ہے تو اس کا مقصد کیا ، ووٹ ہے یا کسی اور کیلئے کچھ چگاڑ۔
دہلی بی جے پی کے لیڈر ہیں رمیش بدھوری جب وہ ایم پی تھے تب انہوں نے لوک سبھا میں بی ایس پی رکن دانش علی کو گالیاں دیں، اس کے بعد بھی بی جے پی نے ان کے خلاف کوئی کارروئی نہیں کی، اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ دیا طرح طرح کے وہ بیان دیتے رہے، آج بھی رمیش بدھوری کے ٹوئٹر ہینڈل پر یہ بیان سب سے اوپر ہے جس میں رمیش بدھوری نے کہا ہے کہ ملک کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی، ملک میں رہنے والے لوگوں کو یہ مان لینا چاہیئے اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوئی تھی تو میڈیا سے بھی میں درخواست کروں گا جو بار بار کہتے ہیں ’’ ایک مخصوص طبقہ ‘‘ وہ مخصوص طبقہ کہاں سے ہوگیا ’’ ادھرمی طبقہ ‘‘ کہنا چاہیئے ۔ کوئی بھی ہو ادھرمی طبقہ مخصوص تو اسپیشل ہوگئے، گودی میڈیا میں بدھوری سے کیا پوچھنے جائے گا کہ وہ ادھرمی طبقہ کے گھر مودی کی سوغات لیکر کب جارہے ہیں؟۔2014 کے بعد دہلی میں بی جے پی نے کب افطارکا اہتمام کیا، اقتدار میں آتے ہی بی جے پی نے افطار کا اہتمام کیا۔ بی جے پی کے لیڈران آئے گودی میڈیا نے کوئی ہنگامہ نہیں مچایا وہ اتنا تو پوچھ سکتا تھا کہ 2014 کے بعد دہلی میں سیاسی افطار بند ہوگیا، اچانک کیوں شروع ہوا کس کیلئے ہورہا ہے۔ بی جے پی کے لیڈر شاہنواز حسین کی دعوت افطار میں واجپائی اور منموہن سنگھ دونوں جایا کرتے تھے، ان کی دعوت افطار میںکسی نے شاہنواز حسین سے افطار کے بارے میں سنا یا پوچھا ؟ بی جے پی کے جارحانہ رویہ کی وجہ سے افطار سے بی جے پی کے ہی نہیں اپوزیشن کے کمزور لیڈران بھی دور رہنے لگے اور اس دہلی میں دعوت افطار کا اہتمام ہوتا ہے۔ بی جے پی کے قائدین اور دہلی بی جے پی حکومت کے تمام وزراء جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جہانِ خسرو کے پروگرام میں جاتے ہیں‘ بھارت کی جگہ ہندوستان بولتے ہیں‘ مشترکہ وراثت پر خطاب کرتے ہیں۔ وزیر پارلیمانی اُمور کرن رجیجو جو اقلیتی اُمور کے بھی وزیر ہیں مدینہ کی تاریخی مسجد کے پاس تصویر کھنچواکر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں‘ انہیں کوئی ٹرول نہیں کرتا لیکن ایک ایسی تصویر راہول گاندھی نے ڈال دی ہوتی تو آئی ٹی سل سے لیکر بی جے پی اور گودی میڈیا سارا کام چھوڑ کر اِسی پر بحث کرنے لگ جاتے کہ کیا راہول گاندھی مذہب تبدیل کررہے ہیں؟۔
عید کی سوغات بھیجی جارہی ہے کیا چیف منسٹر اُترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کسی مسلمان کے گھر عید کی سوغات لیکر جاسکتے ہیں‘ افطار میں شامل ہوسکتے ہیں‘ اتنا سب کرنے کی کیا ضرورت ہے، دعوت افطار میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی جاسکتے ہیں اور افطار کا اہتمام بھی کرسکتے ہیں۔ ایک طرف آپ افطار میں جانے سے دوری بناتے ہیں اور دوسری طرف عید کی سوغات آپ بھجوارہے ہیں، یہ سب چل رہا ہے اِسی بیچ بی جے پی دہلی کے رکن اسمبلی رویندر تیگی نوراتری کے نام پر میٹ مٹن کی دکانات بند کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں تب تو سوال اُٹھے گا ہی کہ آپ ایسا کیوں کررہے ہیں، آپ کا کوئی لیڈر مسلمانوں کو ادھرمی کہہ رہا ہے، آپ کا ایک لیڈر ان کے گھر پر سوغاتِ عید لیکر جارہا ہے۔ سال میں دو مرتبہ بلکہ کئی بار جگہ جگہ پر میٹ مٹن والوں کی دکانات بند کروادی جاتی ہیں۔ آپ ان گھروں کی مایوسی سمجھئے جن کی دکانات نو، نو دن بند رہتی ہوں گی۔ میٹ مٹن دکانداروں پر ہر وقت خطرہ رہتا ہے کہ کب ان کے گوشت کو کسی چیز کا بتاکر حملہ کردیا جائے گا، گھر جلادیا جائے گا۔ پھل ٹھیلہ والوں سے کہا جاتا ہے کہ نام لکھو تاکہ پتہ چلے کہ وہ مسلمان ہے۔
26 مارچ کے ’ مڈ ڈے ‘ اخبار میں ممبئی سے ایک خبر دیکھئے 15 اگست 2017 کو ممبئی کے ایک مسلم تاجر پر گاؤ رکھشکوں نے حملہ کردیا ان کا بھینس کے گوشت کا کاروبار تھا، اپنی جان بچانے کیلئے آئر لینڈ پہنچے اور وہاں پر پناہ مانگنی پڑگئی۔ اب وہاں کی انٹر نیشنل پروٹیکشن اپیل ٹریبیونل نے فیصلہ دیا ہے کہ اگر وہ ہندوستان واپس آئے تو مذہبی بنیادوں پر انہیں ہراساں و پریشان کیا جاسکتا ہے۔ ٹریبیونل نے پایا ہے کہ ان کی ہراسانی ان کی مذہبی شناخت و پہچان سے جڑی ہے اِسی وجہ سے آئرلینڈ نے پناہ دی ہے۔ میٹ فروخت کرنے والی کمپنیوں سے بی جے پی خود انتخابی چندہ لے چکی ہے۔ کتنی بار خبریں شائع ہوئی ہیں کہ بیف برآمد کرنے والی کمپنی نے بی جے پی کو دو کروڑ کا چندہ دیا تھا اور 5 کروڑ اس کی قریبی حلیف شیوسینا کو دیا۔ تب تو کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ آخر آپ کسی کی روزی روٹی کیوں چھین رہے ہیں؟۔ کیا ایم ایل اے رویندر نیگی نے سوچا کہ 9 دن کسی میٹ مٹن والے کی دکان بند رہے گی‘ انڈے والے کی بنڈی ہٹ جائے گی تو اس کا گھر کیسے چلے گا اور اس کے گھر میں رویندر نیگی مودی کی سوغاتِ عید لیکر جائیں گے تو راجیہ سبھا میں بی جے پی کے رکن اور پارلیمانی اُمور کے وزیر کرن رجیجو نے وقفہ صفر اس لئے ختم کردیا کہ کانگریس کے اہم لیڈر نے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے دستور بدلنے کی بات کی ہے۔ کانگریس نے دستور بدلنے کی بات سے انکار کیا۔ بی جے پی کی ٹنڈرس میں تحفظات کی مخالفت کررہی ہے لیکن یہی بی جے پی چندرا بابو نائیڈو کے سامنے چُپ ہوجاتی ہے جو افطار میں جاتے ہیں‘ دعا پڑھتے ہیں‘ آندھرا پردیش میں مسلمانوں کو باقاعدہ سرکاری ملازمتوں میں تحفظات حاصل ہیں‘ اس کی حفاظت کرنے کی گیارنٹی دیتے ہیں‘ کیا بی جے پی آندھرا پردیش میں تحفظات ہٹا سکتی ہے؟ تحفظات ہٹانے کی تحریک چلاسکتی ہے؟ اس پر ابھی وہ کچھ بول نہیں پائے گی۔