محمد مجیب احمد
اس روز صبح ہی سے ملک کے دور دراز مقامات سے آئے ہوئے سیاح جن میں خاندان اور جوڑے بھی شامل تھے وہ گھوڑوں ، خچروں اور آل ٹیرین ٹانگوں پر سوار ہوکر دشوار گزار راستے اور کٹھن چڑھائی سے ہوکر جنت نظیر کشمیر کے پہلگام کے بلند علاقے پر واقع حسین و خوب صورت سیاحتی مقام ’’وادی بائسرن‘‘ کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے کے لئے وہاں کا رخ کرنے لگے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں کیمرے ، چہروں پر خوشی اور دلوں میں امنگ تھی ۔ کوئی شادی کی خوشیاں منانے اور کوئی چھٹیاں گزارنے کے مقصد سے آیا تھا ۔ اونچے دیودار گھنے چیڑ کے جنگلات سے گھری یہ برف پوش اور سرسبز چراگاہ ’’منی سوئٹزر لینڈ‘‘ کے نام سے اپنی منفرد پہچان رکھتی ہے ۔ وہاں کی مچلتی ہوائیں ، جھکی جھکی گھٹائیں اور پر بہار فضائیں بے مثال تھیں ۔ سروقد درختوں سے چھن چھن کر اوس کی بوندوں پر گرتی سورج کی سنہری کرنیں ہیرے جیسی لگ رہی تھیں ۔ ان سیاحوں کے ہمراہ نو بیاہتا جوڑا ونے اور ہیما بھی اس دلکش اور دلفر یب سیرگاہ پہنچ کر اس کی خوبصورتی اور دلکشی سے محظوظ ہونے لگا تھا :
’’ونو ! کیا ہی یہ سندر وادی ہے ۔‘‘ ہیما خوشی سے بے ساختہ کہہ اٹھی ۔’’ہاں ۔ ہیمو ! اس کی سندرتا کا جواب نہیں۔‘‘ ونے ، نے مسرورآگیں لہجے میں جواب دیا ۔’’چلو ۔ آج ہم تم اس جنت ارض کی خوب سیر کریں گے ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دوجے کا ہاتھ تھامے وادی کے مست و سرشار ماحول میں گھومنے لگے ۔
وادی کے فرحت بخش مقام پر سیاح خوش گپیوں ، کھیل کود اور تصویر کشی میں مگن تھے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے دوپہر کا وقت آپہنچا ۔ اس دوران وادی میں چند مسلح دہشت گردوں کی ٹولی جو فوجی طرز کی وردی میں ملبوس تھی اچانک وارد ہوکر اندھادھند فائرنگ شروع کردی ۔ پہلے پہل تو سیاحوں نے گولیوں کی آوازیں سن کر یہ خیال کیا کہ شاید پٹاخے جلائے جارہے ہو گے یا پھر آرمی ٹریننگ ہورہی ہوں گی ۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ نقاب پوش بندوق بردار سفاکانہ انداز میں گولیاں چلا رہے ہیں اور ایک سیاح گولی لگنے پر ڈھیر ہوگیا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ دہشت گردانہ حملہ ہورہا ہے پھر ان کا نام اور دھرم پوچھ پوچھ کر انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا جانے لگا تو وہ بے بسی کی حالت میں اپنی حفاظت کیلئے جدھر راہ ملی ادھر بھاگنے اور چھپنے لگے ۔ یہ دہشت اور بربریت دیکھ کر انہیں ایسا لگا کہ دہشت گرد کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔
ہمیں بچاؤ … انہیں روکو … ورنہ ہم یوں ہی ماردیئے جائیں گے …‘‘ سیاح بے تحاشہ چیخنے چلانے لگے ۔ ہرسو افراتفری مچ گئی ۔ انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ان کی جانوں کو اس طرح کا خطرہ لاحق ہوگا ۔ ایسے میں ونے اور ہیما کے سامنے ایک دہشت گرد آدھمکا اور اپنی خون خوار اور قہر آلود نظروں سے ونے کو دیکھنے لگا پھر اس کی مذہبی شناخت کے بعد اس پر تین گولیاں چلادیں ۔ وہ جاں کنی کے عالم میں تڑپنے لگا تو ہیما کی روح کانپ کر رہ گئی اور جسم لرزنے لگا تھا ۔ یہ روح فر ساء اور جسم پارہ پارہ کردینے والا منظر دیکھ کر اس کے ہوش و حواس جیسے معطل ہوکر رہ گئے تھے ۔ اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی اور تاحد نظر اندھیرا سا چھا گیا تھا ۔ خون کے پیاسوں نے اس خون ریز کارروائی سے پل بھر میں درجنوں بے قصور سیاح مردوں کو بلاک اور بیسیوں کو شدید مجروح کردیا تھا ۔
اس ہلاکت انگیز واردات کے بعد برف پوش پہاڑوں اور تناور قد آور درختوں سے گھری یہ سرسبزو شاداب وادی غم وزدہ اور ماتم کناں تھی ۔ ساری وادی قتل عام کی لرزہ خیز داستان سنارہی تھی ۔ سب ہی لوگ سوگوار اور سہمے ہوئے تھے ۔ چاروں طرف بوجھل ماحول میں گہرا سکوت اور سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ ونے کی لاش اندوہناک سانحہ کی پہچان بن گئی تھی ۔ لاش کے پہلو میں بیٹھی ہوئی اس کی نئی نویلی دلہن ہیما کی خاموش اور دل دہلادینے والی تصویر درد کی آواز بن کر پوری دنیا کو دہشت گردوں کی وحشیانہ کارستانی کا ثبوت پیش کررہی تھی ۔ دہشت گردوں نے اس کی آرزوؤں ، تمناؤں اور خوشیوں کا خون کرکے اس کا جیون ویران کردیا تھا ۔
ونے اور ہیما کی شادی ہوئے صرف کچھ دنوں کا عرصہ ہوا تھا ۔ ونے کی لاش کو دیکھ کر ایسا احساس ہورہا تھا کہ جیسے وہ دیودار کیل کے جنگل کے اس وسیع و عریض میدان کے بیچوں بیچ دور دور تک گھومنے کے بعد دولہے کے عمدہ و نفیس لباس میں سور ہا ہو اور اس کے پاس بیٹھی ہوئی دلہن اپنے دولہے کے بیدار ہونے کا انتظار کررہی ہے تاکہ وہ دونوں پھر سے پربتوں کے درمیان اس بے پناہ حسین وادی کا مزید لطف اٹھاسکے ۔ مرنے کے بعد بھی بحریہ کے اس نوجوان لیفٹننٹ آفیسر کا چہرہ دولہے جیسا لگ رہا تھا ۔ ہیما کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ونے ابدی نیند سوچکا ہے ۔ آنسوؤں سے لبریز ہیما کی آنکھیں اس کی دردناک اندرونی کیفیت کی غمازی کررہی تھیں ۔ وہ رنج و لم میں ڈوبی ہوئی اس ناقابل تحمل صدمے کے اظہار سے قاصر تھیں ۔ یہ المناک منظر دیکھنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہورہا تھا ۔ ونے اور ہیماہنی مون منانے کے لئے کشمیر آئے تھے ۔ پہلے تو انہوں نے ہنی مون کے لئے یورپ جانے کا منصوبہ بنایا تھا مگر ویزا نہ ملنے پر کشمیر کا رخ کیا تھا ۔ انہیں کیا پتہ کہ یہاں ان کے ساتھ یہ المیہ واقع ہوگا ۔ دہشت گردوں نے ونے کو موت کی وادی میں پہنچاکر ہیما کی مانگ کا سندور اجاڑ دیا تھا ۔ اس نئے نویلے جوڑے کے کشمیر میں گزارے ہوئے خوشگوار لمحات کو قاتلوں نے کرب ناک حالات سے دوچار کردیا تھا ۔ ہیما کی سونی مانگ کا کرب ساری انسانی برادری کو افسردہ اور آنکھیں نم کرگیا تھا ۔
’’ میرا ونے مرا نہیں ہے وہ میرے اندر سانسیں لے رہا ہے ۔ اس کی محبتیں اور یادیں میرے دل کے نہاں خانے میں پنہاں ہیں انہیں کوئی بھی دہشت گرد چھین نہیں سکتا ‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے ہیما سسکنے لگی تھی ۔ اس کی سسکیاں وادی کی خاموشیوں اور سناٹوں میں بازگشت بن کر گونج رہی تھیں ۔