سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت سے فوج اور پیرا ملٹری فورس کے جنرلس کیساتھ جنگ بندی کیلئے بات چیت جاری
ریاض :سوڈان میں فوج اور پیراملٹری فورسز کے درمیان جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی امور کے اعلیٰ عہدیدار مارٹن گریفتھس سعودی عرب پہنچ گئے۔ میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق 15 اپریل سے جاری اس لڑائی میں اب تک متعدد بار جنگ بندی کے معاہدوں کا اعلان اور پھر اس کی فوری خلاف ورزی کی جاچکی ہے۔شدید لڑائی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، ہزاروں لوگ زخمی ہوچکے ہیں اور ایک ممکنہ انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ سعودی عرب کے شہر جدہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، کامیابی کی صورت میں سوڈان کی محصور آبادی تک انسانی امداد پہنچانے کی کوششوں کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ مارٹن گریفتھس جدہ میں موجود ہیں، ان کے دورے کا مقصد سوڈان میں انسانی ہمدردی کے مسائل پر بات کرنا ہے۔ مارٹن گریفتھس گزشتہ ہفتے پورٹ سوڈان میں تھے، انہوں نے بتایا کہ انہیں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے مطلع کیا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دارفر کے علاقے میں امداد لے جانے والے 6 ٹرکوں کو راستے میں لوٹ لیا گیا۔انہوں نے انسانی ہمدردی کے انتظامات ہموار انداز میں جاری رکھنے کے لیے فوج سے حفاظتی ضمانتوں کا مطالبہ کیا۔تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں مارٹن گریفتھس براہ راست کوئی کردار ادا کریں گے یا نہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ نے مذاکرات کی حمایت کی ہے اور فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ فعال انداز میں مذاکرات میں شامل ہوں۔جدہ سے خبر ایجنسی کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی امور کے نمائندے مارٹن گریفتھس سوڈان کے متحارب گروپوں کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔جدہ سے میڈیاکے مطابق ممکنہ جنگ بندی مذاکرات سے متعلق بہت کم تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ سوڈان میں 15 اپریل سے جھڑپیں جاری ہیں، ان جھڑپوں میں اب تک 7 سو سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ ایک طرف جدہ میں سوڈان کی فوج اور پیرا ملٹری فورس (آر ایس ایف) کے جنرلوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے امریکی اور سعودی حمایت سے مذاکرات جاری ہیں لیکن دوسری جانب سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں فائرنگ اور فضائی حملوں کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کی کوششوں سے سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا گیا ہے تا کہ غربت کے شکار ملک سوڈان کے لوگوں کو انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔مذاکرات کا آغاز ہفتے کو ہوا ہے البتہ اس کی زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
سوڈان میں فریقین ایک دوسرے کو ان جھڑپوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل نبیل عبداللہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات اس بات پر ہو رہے ہیں کہ انسانی امداد کے لیے جنگ بندی کو صحیح طریقے سے کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔سوڈان میں جنگ بندی کے باوجود لڑائی تیسرے ہفتے میں داخل ہوگئی ہے۔ کئی ممالک کے شہریوں کا انخلا جاری ہے ۔دوسری طرف آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان دقلو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ تکینکی مذاکرات کو خوش آمدید کہتے ہیں۔واضح رہے کہ سوڈان سے ایک بڑی تعداد میں مقامی افراد دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں جب کہ دیگر ممالک کے سوڈان میں موجود تارکین وطن بھی ملک سے نکل رہے ہیں۔آرمی کے سربراہ جنرل عبد الفتح برہان اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو ماضی کے حلیف ہیں جنہوں نے مشترکہ طور پر 2021 میں ملک میں قائم حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جب کہ بعد ازاں اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔سوڈان میں عسکری قوتوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب عمر البشیر کے زوال کے چار سال بعد ایک نئی سویلین حکومت کی تشکیل کے لیے بین الاقوامی حمایت یافتہ اقتدار منتقلی کا منصوبہ شروع ہونا تھا۔فوج اور نیم فوجی دستے دونوں ہی ایک دوسرے پر منتقلی کو ناکام بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔