ونیتا بھلاّ
سپریم کورٹ نے گذشتہ سال نومبر میں صاف طور پر کہا تھا کہ بُلڈوزر کے ذریعہ انصاف ( بُلڈوزر کے ذریعہ مبینہ ملزمین کے مکانات کو منہدم کرنا ) غیر قانونی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں خاص طور پر بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں جیسے اُترپردیش اور مہاراشٹرا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے مکانات اور دکانات پر بُلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ عدالتی احکامات کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ یہ غیر قانونی انہدامی کارروائیاں صرف اس وقت ہی رُکیں گی جب عدالتیں سپریم کورٹ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے عہدہ داروں کو سزائیں دیں گی۔22 مارچ کو ایک عوامی تقریب سے خطاب میں سپریم کورٹ کے جسٹس اُجل بھویان نے غیر قانونی و ناجائز طور پر مختلف بہانوں سے مکانات و دکانات کے انہدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جرم کے مبینہ ملزمین کے مکانات اور املاک کا من مانی انہدام انتہائی پریشان کن اور انتہائی افسردہ کرنے والا عمل ہے۔ انہوں نے مزید کہا : ’’ جہاں تک میرا سوال ہے میری نظر میں کسی جائیداد ( مکان و املاک ) کو ایک بلڈوزر استعمال کرتے ہوئے منہدم کرنا ایسے ہی ہے جیسے دستور پر بلڈوزر چلانا۔ مکانات پر بُلڈوزر چلانا نہ صرف دستور پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے بلکہ یہ قانون کی حکمرانی کے تصور کی نفی ہے، اور اگر اسے نہیں روکا گیا تو یہ رجحان یا عمل انصاف رسانی کے نظام کی عمارت کو تباہ و برباد کردے گا۔‘‘
جسٹس اُجل بھویان نے یہ تبصرہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے چار ماہ بعد کیا جس میں ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن نے ماورائے دستور و ماورائے قانون انہدامی کارروائیوں کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔ اپنے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کسی بھی املاک کو منہدم کرنے بلدی حکام کیلئے تفصیلی رہنمایانہ خطوط بھی فراہم کئے ساتھ ہی اس قسم کی کارروائیاں کرنے والے اہلکاروں پر شخصی ذمہ داری بھی عائد کی۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کے باوجود جرائم کے الزام میں ( بہانہ سے ) لوگوں کے گھروں کی من مانی ایک ایسا عمل ہے جسے کچھ حلقوں میں ’’ بُلڈوزر جسٹس ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ جب ایسی مثالیں سپریم کورٹ کے سامنے لائی گئیں تو اس نے بعض موقع پر متاثرین کو ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کی ہدایت دی، دیگر معاملات میں اس نے نوٹس جاری کی ہے یا انہدامی کارروائی پر روک لگادی ۔
سپریم کورٹ کی ہدایات: … اگرچہ ہندوستانی قانون ایک تعزیری کارروائی کے طور پر املاک کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن مکانات؍ املاک پر بُلڈوزر چلانا عام ہوگیا ہے، خاص طور پر اُن ریاستوں میں جہاں بی جے پی کا اقتدار ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل اور جون 2022 کے درمیان چار بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں اور عام آدمی پارٹی کی زیر قیادت ایک ریاست میں 128 مکانات کو منہدم کیا گیا، متاثرین میں ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ 2022 میں اس غیر قانونی و غیر انسانی کارروائیوں کو چیلنج کرنے کیلئے مفادات عامہ کی ایک نہیں‘ دو نہیں بلکہ تین درخواستیں داخل کی گئیں اور پھر نومبر میں عدالت نے انہدامی کارروائی کن حالات میں کی جاسکتی ہے اس تعلق سے رہنمایانہ خطوط جاری کئے، ان رہنمایانہ خطوط کے مطابق کوئی بھی انہدامی کارروائی 15 دن قبل وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے کے بعد ہی انجام دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ رہنمایانہ خطوط میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جن کے مکانات کو منہدم کیا جارہا ہے ان کی شخصی سماعت بھی کی جانی چاہیئے اور پھر قطعی حکم میں متاثرہ فریق کے دلائل کی سماعت کرتے ہوئے، املاک کو باقاعدہ بنانے کے امکانات اور انہدام کی ضرورت کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔
بُلڈوزر ناانصافی کا سلسلہ جاری ہے : … اسکرول نے خاص طور پر نوٹ کیا تھا کہ سرکاری اراضیات پر تجاوزات ( ناجائز قبضوں ) کے لئے اِس استثنیٰ نے حکام کیلئے من مانی طور پر گھروں کو منہدم کرنے کیلئے ایک اہم خلاء چھوڑی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد چار ماہ سے زائد عرصہ میں حکام کی جانب سے سپریم کورٹ کے 13 نومبر کے رہنمایانہ خطوط پر عمل کئے بغیر غیرقانونی طور پر کئی مکانات کو منہدم کرنے کے دستاویزی واقعات پیش آئے، ایسا اس بہانے کیا گیا ہے کہ جن املاک کو نشانہ بناکر منہدم کیا گیا ہے وہ غیر قانونی ہیں یا پھر ان کی سرکاری اراضیات پر تعمیر عمل میں لائی گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں گذشتہ پیر کو ناگپور بلدیہ کے حکام نے 17 مارچ کو شہر میں پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد کے مبینہ ملزمین میں سے ایک فہیم خان کے مکان کے حصوں کو اس الزام میں منہدم کردیا کہ وہ ان فسادات میں ملوث ہیں۔ انہدامی کارروائی کے چند گھنٹوں بعد بمبئی ہائی کورٹ نے انہدامی کارروائی کے حکم پر حکمِ التواء جاری کردیا۔اگرچہ فہیم خان کے مکان پر بُلڈوزر چلانے سے نہیں روکا جاسکا تاہم ایک اور مبینہ ملزم یوسف شیخ کے مکان کے مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ حصوںکو بلدی حکام منہدم نہیں کرسکے۔
آپ کو یاد دلادیں کہ مہاراشٹرا کے ضلع سندھودرگ میں واقع کالوان ٹاؤن میں ایک مسلم شہری کے مکان اور دکان کو بلدی حکام کی جانب سے بناء کسی پیشگی نوٹس کے منہدم کردیا گیا اور اس کے لئے بہانہ یہ بنایا گیا کہ وہ تعمیرات غیر قانونی تھیں۔23 فروری کی رات حکام نے مکان اور دکان کو زمین کے برابر کردیا۔ متاثرہ شخص نے دعویٰ کیا کہ ان کے اور ان کی بیوی کے خلاف اس الزام کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی کہ 23 فروری کو ہند۔ پاک میچ کے دوران ان کے کمسن بیٹے نے ہند مخالف نعرہ لگایا۔ خطاب اللہ حمید اللہ خاں یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے کہ بلدی حکام نے اس ( سپریم کورٹ ) کے ان احکامات کی تحقیر کا ارتکاب کیا ہے جو اُس نے 13 نومبر کو جاری کئے تھے جس پر عدالت نے اس معاملہ میں پیر کو نوٹس بھی جاری کرتے ہوئے بلدی حکام سے وضاحت طلب کی ۔ پنجاب میں پولیس نے منشیات کے سپلائرس کے مکانات؍ املاک کو اس بنیاد پر منہدم کردیا کہ ان لوگوں نے یہ جائیدادیں منشیات کے ناجائز و غیر قانونی کاروبار کے ذریعہ دولت اکٹھا کرکے خریدیں۔ یکم؍ مارچ کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک درخواست داخل کی گئی جس میں غیر قانونی انہدامی کاروائی سے متعلق سپریم کورٹ کے رہنمایانہ خطوط پر عمل آوری کی التجاء کی گئی۔ درخواست میں یہ بھی التجاء کی گئی کہ منشیات کے کاروبار سے متعلق جو معاملات ہیں ان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 9 فروری کو اُترپردیش کی ہاتھا بلدیہ نے مدنی مسجد کے کچھ حصے منہدم کردیئے۔ حکام نے مبینہ طور پر مسجد کی انتظامی کمیٹی کے موقف کی سماعت نہیں کی، اس معاملہ میں بھی سپریم کورٹ میں ایک درخواست داخل کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کے رہنمایانہ خطوط کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے حکام کے خلاف تحقیر عدالت کی کاروائی کی جائے۔ درخواست گذار کا کہنا تھا کہ حکام مسجد کے جن حصوں کو منظورہ پلان سے ماوراء قرار دے کر منہدم کرچکے ہیں انہیں باقاعدہ بنایا جاسکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں بھی بلدی حکام کو نوٹس جاری کی اور مسجد کی مزید انہدامی کاروائی پر حکم التواء جاری کردیا۔ دوسری جانب گجرات کے احمد آباد میں بھی مسلمانوں کی بے شمار جائیدادوں کو منہدم کردیا گیا، ان متاثرین کے وکلاء وکیل پارس ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ حکام اور حکومتوں کو قانون کی حکمرانی اور جمہوریت سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔ صاریم نوید ایڈوکیٹ نے جو ایک درخواست گذار کی وکالت کررہے ہیں‘ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس قسم کی انہدامی کاروائیاں عدالتوں کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ہمیں عدالتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔