وکاس سنگھ
جمہوریت میں عوام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اقتدار تفویض کرتے ہیں اور جہاں تک کسی کو اقتدار سونپنے یا اقتدار پر بٹھانے کا سوال ہے ایسا اقتدار احتساب یا جوابدہی کا متقاضی ہوتا ہے جبکہ خود سے اختیار کردہ اقتدار اس سے بھی کہیں زیادہ احتساب کا تقاضہ کرتا ہے۔ ہم جب اپنے ملک ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو یہ بجا طورپر کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ رقبہ کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ہندوستان ایک بہت بڑا اور عظیم ملک ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی یہ دنیا بھر میں سرفہرست ہے ۔ اس ملک کی خوبی اس کی وحدت میں کثرت والا اُصول ہے جو یقینا اس ملک کی روح ہے اور یہ صرف اور صرف آزادی کی بنیاد پر قائم ہے ۔ ایسی آزادی جو صرف نوآبادتی حکمرانی سے نجات تک محدود نہیں بلکہ مساوات ، سلامتی اور وقار و احترام کے ساتھ زندگی گذارنے کی آزادی ہے ۔
آپ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کو تقریباً 200 برسوں تک برطانیہ نے اپنی نوآبادیات میں شامل رکھا ۔ ہندوستانیوں کی آزادی کو سلب کیا ، اُن کے حقوق پامال کئے ، باالفاظ دیگر اس عظْم ملک کے قدرتی وسائل کو لوٹتا رہا ۔ لیکن بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل تمام ہندوستانیوں نے اپنی عظیم تر قربانیوں کے ذریعہ اپنے ملک کو نوآبادیاتی حکمرانی سے نجات دلائی یعنی آزادی دلائی اور آج ہندوستان ایک آزاد ملک ہے ۔ اگر ہم سیاسی آزادی سے لیکر حقیقی آئینی آزادی تک کے اس سفر پر غور کریں ، اس کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں تو یہ سفر ہر اہم موقع پر ہماری عدلیہ کے ذریعہ ممکن ہوتا ہے ۔ اگرچہ کالجیم کا نظام عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے بنایا گیا ہے تاکہ انتظامیہ کی مداخلت کم سے کم ہو لیکن اس نے غیرارادی طورپر منصفانہ نمائندگی اور شفاف طریقہ کار کو یقینی بنانے میں نمایاں چیلنجز پیدا کردیئے ہیں۔
ایک بہت ہی اہم اصلاح جس پر توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے وکلاء کو ہائیکورٹ کے تقرری عمل میں شامل کیا جائے۔ عدالت العالیہ یا ہائیکورٹس کے جج بننے کیلئے سپریم کورٹ کے وکلاء کو تقریباً نظرانداز کردینا ایک من مانی پالیسی ہے ۔ یہ وکلاء اکثر پیچیدہ دستوری اور دوسرے مقدمات میں شریک ہوتے ہیں اور اُن کے پاس علمی لیاقت اور عدالتی تجربہ ہوتا ہے جو اُنھیں عدالتی عہدوں کیلئے نہایت موزوں بناتا ہے ۔ یہ حقیقت کہ وہ کسی مخصوص ہائیکورٹ میں وکالت نہیں کرتے نااہلی میں شمار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُن کا قومی قانونی معاملات سے واسطہ ایک اہلیت کے طورپر دیکھا جانا چاہئے بلکہ شائد ایک برتر اہلیت یا لیاقت خاص طورپر یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ایسے وکلاء اپنے آبائی شہروں اور سپورٹ سسٹم کو چھوڑکر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں وکالت کرتے ہیں۔ اس طرح کی انتظامی نظرانداز سے نہ صرف قیمتی قانونی ؍ عدالتی صلاحیت ضائع ہوتی ہے بلکہ میرٹ پر مبنی تقرراتی عمل کے اُصول کو بھی نقصان پہنچتا ہے جو عدالتی انتخاب کی بنیاد ہونی چاہئے ۔ ساتھ ہی موجودہ ڈھانچہ نے خواتین اور مختلف سماجی اور علاقائی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی کی کمی کو جڑ سے مزید مضبوط کردیا ہے ۔
اکثر معاملات میں دلائل دینے والے وکلاء یا وکیل اور بریفنگ ایڈوکیٹ کے درمیان فرق اس بات سے ہوتا ہے کہ اول الذکر کو دلکشی و پراثر گفتگو اور فوری سوچنے کی صلاحیت کی وجہ سے شہرت ملتی ہے جبکہ آخرالذکر وکیل کے کندھوں پر تیاری ، قانونی جہت اور مقدمہ کے انتظام کی اصل ذمہ داری ہوتی ہے ۔ دلائل دینے والے وکلاء اکثر اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ اُنھیں سینئر وکیل کا درجہ دیا جائے جو عدالت میں موجودگی اور وکالت کے اعتراف کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس کے برعکس بریفنگ وکیل یا وکلاء کو بھی عدالتی ترقی کے فطری امیدوار سمجھا جانا چاہئے کیونکہ وہ قانونی تجزیئے اور اداہ جاتی عمل میں گہری مہارت رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ کردار اور خواہشات اکثر عملی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوتے ۔ جس بنچ پر تقررات پر غور کیا جاتا ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ خاموش مگر حقیقی قابلیت و صلاحیت کو اس کا حق دیا جائے ۔ صرف ظاہری چہرے کو آگے بڑھاکر ان بنیادی کرداروں کو نظرانداز کرنا جو اصل کامیابی کے ضامن ہیں بالکل ناانصافی ہے اور مسابقت کی بگڑی ہوئی تفہیم کو قائم رکھنے کے مترادف ہے اور اس نظرانداز کی قیمت بہت بھاری ہے ۔ اس سے ایک ایسی نسل کے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے جو نہایت قابل قانونی ذہنوں پر مشتمل ہے ۔ یہ لوگ اگرچہ ہمیشہ منظرعام پر نہیں ہوتے مگر وہ علمی گہرائی ، علمی وسعت ، اخلاقی بنیاد اور عدلیہ میں پختگی رکھتے ہیں جو عدالتی منصب کے لئے لازمی ہیں ۔
عدالتی ترقی کو محض منہ دکھائی کے تماشہ تک محدود نہیں کرنا چاہئے ، اس عمل کو ایسے ڈھانچہ میں ڈھالنا ہوگا جو ظاہری تاثر کی بجائے مواد اور کشش کے بجائے کردار کو پہچانے ، ایک شفاف اور منصفانہ فریم ورک وضع ہونا چاہئے جو تمام اہل امیدواروں کی شناخت کرے اور آگے لائے ، چاہے وہ سامنے بیٹھ کر دلیل دیں یا پیچھے سے مقدمہ تیارکریں تب ہی عدلیہ حقیقی معنوں میں ان اقدار کی عکاس ہوسکے گی جن کی وہ نمائندہ ہے ۔ عدالتی تقررات میں موجود ساختی خامیاں اس عمل کے گرد چھائی ہوئی غیرشفافیت مزید بڑھ جاتی ہے ۔ واضح اُصولوں کی عدم موجودگی میں انتخاب من مانی اور اخراجی لگتا ہے ۔ اس سے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ قیاس آرائیاں بڑھتی ہیں ، اہل امیدوار اقتدار کے قریب نہ ہونے کی وجہ سے شفافیت کے بغیر میرٹ پر سمجھوتہ ہوتا ہے اور ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اب معمولی تبدیلیوں کا وقت گذرچکا ہے ، اب ایک بنیادی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ ایسی اصلاح جو عدالتی ترقی کو آئینی اقدار یعنی شفافیت ، میرٹ اور شمولیت کے ساتھ ہم آہنگ کرے ۔