سپریم کورٹ میں اصلاحات کا وقت

   

پی چدمبرم
سپریم کورٹ آف انڈیا کے قریبی مشاہدہ سے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ عدالت کا کردار اس کی کارکردگی یعنی افعال اور مقدمات کے سماعت کے طریقہ کار گزشتہ دو دہوں سے قابل لحاظ حد تک تبدیل ہوگئے ہیں۔ جو تبدیلیاں اس دوران عدالت کے مذکورہ نکات میں آئی ہیں ان میں سے قابل توجہ خصوصیات حسب ذیل ہیں:
٭ ججس کو مقدمات تفویض کرنے کا نظام بالخصوص پریسائیڈنگ جج کو کیس تفویض کرنے سے متعلق نظام۔
٭ بنچس کی ترتیب
٭ عدالتی دائرہ کار کی توسیع
٭ بعض فیصلوں کی قانونی اصول پر مبنی بنیاد اور
٭ عاملہ کے اختیارات میں کمی

قدیم تشویش ہنوز موجود
کئی اسکالرس نے ہمارے عدالتی اصلاحات کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور مرکزی و ریاستی حکومتوں نے اس ضمن میں کئی اصلاحات بھی نافذ کئے۔ اس سلسلہ میں ہم خصوصی عدالتوں کے قیام زیادہ سے زیادہ ججس کے تقررات وغیرہ کی مثال دے سکتے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ نے اس سلسلہ میں زیادہ قوانین بنائے اور خود سپریم کورٹ نے بھی مقدمات سے متعلق دستاویزات کے ڈیجیٹائزیشن، کیس مینیجمنٹ اور اب ورچول کورٹس (مقدمات کی آن لائن سماعت) جیسے اصلاحات نافذ کئے۔ اس کے باوجود پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ ہر سطح پر مقدمات کی بھرمار ہے۔ اس کے علاوہ ججس کی بے شمار جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ ان جائیدادوں پر تقررات سے گریز کیا جارہا ہے اور سب سے بڑھ کر عوام میں اور خاص طور پر ان لوگوں میں ایسے فیصلوں کے معیار کے بارے میں عدم اطمینانی کی کیفیت پائی جاتی ہے جو قانونی چارہ جوئی میں مشغول ہیں یعنی جو فیصلے صادر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض فیصلوں پر فریق ثانی مطمئن نہیں ہیں اور وہ ان فیصلوں کو درست نہیں مانتا۔
دوسری جانب پھر ایک بار عدلیہ کی آزادی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس تشویش کی وجوہات مختلف سطح پر مختلف ہے۔ مثال کے طور پر تحت کی عدالتوں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی سطح پر تشویش بھی مختلف ہے۔ ویسے بھی میری پوری توجہ اِس وقت عدالت عظمیٰ پر ہے۔ جہاں تک بنیادی حقوق کا سوال ہے اور اب انسانی حیوانی اور ماحولیاتی؍ ماحولیاتی حقوق کے بارے میں بھی تشویش بڑھتی جارہی ہے اور سپریم کورٹ ان تمام حقوق کی پاسبان ہے اور اس کی چوکسی بہت ضروری ہے۔ اس پاسبانی اور چوکسی کا کردار اسی وقت ادا کیا جاسکتا ہے جب عدالت پوری طرح آزاد ہو اور میرے خیال میں عدالت کی اس آزادی کو صرف اسی وقت محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور اس کی آزادی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے جب عدلیہ میں چند اہم اصلاحات نافذ کی جائیں۔ میں ذیل میں عدلیہ میں بعض اصلاحات کے بارے میں تحریر کرتا ہوں:

چاہئے: دستوری عدالت
(1 سپریم کورٹ کا ایک دستوری عدالت کی حیثیت سے آگے بڑھنا ضروری ہے۔ ایک ایسی عدالت جو دستور ہند کی تشریح سے متعلق سوالات اٹھانے والے مقدمات کی سنوائی کرے اور اس کا فیصلہ سنائے۔ اس کے علاوہ دستوری عدالت کا کام یہ ہو کہ وہ اہم موقعوں پر ایسے مقدمات کی سماعت کرے جو اُن قانونی مسائل پر مبنی ہوں اور ان کی غیر معمولی عوامی اہمیت ہو اور جن سے عوام پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہوں۔ میری تجویز یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے 7 ججس پر مشتمل بنچ ایک کورٹ کی طرح کام کرے بنچس کی طرح نہیں۔ اس تجویز پر ایک سوال فوری طور پر اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ہائی کورٹس کے فیصلوں پر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کون کرے گا؟ جہاں تک اپیل کے دائرہ اختیار کا سوال ہے یہ ایک اہم ترین فعل ہے اور خاص طور پر وفاقی نظام میں اس کی خاصی اہمیت ہے۔ جہاں تک ہائی کورٹس ہے یہ عدالتیں متضاد فیصلے صادر کرسکتی ہیں۔ ان تمام کا حل یہی ہے کہ مرافعہ کی عدالتیں قائم کی جائیں۔ کم از کم اس قسم کی پانچ عدالتیں قائم کی جائیں اور ہر عدالت میں 6 ججس ہوں اور یہ دو بنچس پر مشتمل ہو اور ہر بنچ میں تین ججس کو شامل رکھا جائے۔ اس طرح مجموعی طور پر ججس کی تعداد 30 ہوگی۔ اگر ہم ملک کی آزادی اور ججس کی تعداد کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں 161 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس طرح 33 ججس … سپریم کورٹ ججس کی موجودہ تعداد 34 ہے۔ ہماری ملک کی عدالت عظمیٰ، عدالت مرافعہ اور دستوری عدالت دونوں کا کردار ادا کرسکتی ہے اور اس کے لئے عدالت عظمیٰ میں اصلاحات نافذ کے جاسکتے ہیں۔
(2 مختلف بنچس کو مقدمات تفویض کرنے کا جو طریقہ کار ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے ارینجمنٹ کے تحت بنچس نہ ہوں اور نہ ہی Master of the Roster (اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدمات کی سماعت کے لئے بنچس کے قیام کی خاطر چیف جسٹس کو خصوصی اختیار یا مراعات حاصل رہتی ہیں) یہ نظام جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ماسٹر آف دی روسٹر بدل کر روسٹر آف دا ماسٹر ہوگیا ہے۔ مسٹر جسٹس کے این سنگھ نے چیف جسٹس کی حیثیت اپنی 18 یومی میعاد کے دوران اپنی بنچ کو کئی ایک مقدمات تفویض کئے اور فیصلے بھی جاری کئے۔ ان کی سبکدوشی کے بعد ان کی قیادت میں جاری کردہ فیصلوں کا نہ صرف جائزہ لیا گیا بلکہ انہیں بدلا بھی گیا۔ ایسے میں کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مسٹر جسٹس دیپک مشرا نے خود اپنے خلاف عائد کردہ الزامات کے مقدمہ کا فیصلہ سنایا اور دوسری بنچ کی جانب سے انتظامی فریق کے بارے میں ایک عدالتی حکمنامہ کو مسترد کردیا۔ انہوں نے اپنی زیر قیادت ایک پانچ رکنی ججس کا بنچ قائم کیا تاکہ انتظامی حکمنامہ کو جاری کیا جاسکے اور پھر یہ مقدمہ تین رکنی بنچ کے حوالہ کردیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی مسٹر جسٹس رنجن گوگوئی کو کیسے معاف کرسکتا ہے جنہوں نے ان کے خلاف عائد کردہ الزامات پر مبنی ایک مقدمہ کو اپنی اس بنچ کے حوالہ کردیا جو دو ججس پر مشتمل تھی اور اس بنچ نے نہ صرف مقدمہ کی سماعت کی بلکہ حکم بھی جاری کیا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جس کے ذریعہ یہ تجویز پیش کی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کے بنچس کو مقدمات سماعت کے لئے تفویض کرنے کے طریقہ کار کو ختم کرنا چاہئے۔

دیگر اصلاحات
(3 چونکہ بنچس مقدمات کی سماعت کرتی ہیں ایسے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اعلان کردہ قانون غیر یقینی ہے۔ ہر اعلیٰ عدالت نے اپنی جانب سے دی گئی رولنگس کو تبدیل کیا لیکن عام طور پر اس قسم کی تبدیلیاں عمریاتی تبدیلیوں یا پھر عوامی آواز اٹھنے کے نتیجہ میں کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر عوام شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے آواز اٹھائیں تو پھر مقدمے پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ میرے مضمون کا لب لباب یہی ہے کہ سپریم کورٹ آزادانہ طور پر کام کرے۔ ساتھ ہی عاملہ کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججس کو ان کی سبکدوشی کے بعد کسی نہ کسی شکل میں انعام دینے کا امکان بھی ختم کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے ہر جج کو سبکدوشی کے بعد اس کی مکمل تنخواہ اور الاؤنسیس تاحیات ملنی چاہئے لیکن اسے سبکدوشی کے بعد کوئی بھی اسائنمنٹ یا عہدہ یا پھر دستوری دفتر کی ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہئے۔ یہ ایک چھوٹی سی قیمت ہے جسے قوم برداشت کرے گی تاکہ سپریم کورٹ کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکے۔