سپریم کورٹ نے 16 سالہ مسلم لڑکی کی شادی کو جائز قرار دیا

   

’’کیا محبت کرنا جرم ہے؟‘‘ لڑکی اور شوہر کو تحفظ دینے کیخلاف این سی پی سی آر کی عرضی خارج

نئی دہلی /19 اگست (ایجنسیز) سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں 16 سالہ مسلم لڑکی کی شادی کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کے شوہر اور بچے کو تحفظ فراہم کرنے کے ہائی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہائی کورٹ نے نابالغ لڑکی اور اس کے بچے کو آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت تحفظ دیا ہے تو اس پر اعتراض بے معنی ہے۔یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 16 سالہ آسیہ نے اپنے 30 سالہ شوہر جاوید کے ساتھ شادی کی اور دونوں کے ایک بچے کی پیدائش کے بعد اہل خانہ کی مخالفت پر ہائی کورٹ سے تحفظ کی درخواست کی تھی۔ ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکی کی عمر 15 سال سے زائد ہے تو مسلم پرسنل لا کے تحت وہ شادی کرنے کی اہل ہے۔این سی پی سی آر نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ شادی “چائلڈ میرج پرہیبیشن ایکٹ’’ اور “POCSO’’ کی خلاف ورزی ہے۔ کمیشن کی نمائندگی ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی نے کی، جنہوں نے دلیل دی کہ 15 سالہ لڑکی قانونی اور ذہنی طور پر شادی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تاہم، جسٹس بی وی ناگارتھنا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ نے ان دلائل کو مسترد کر دیا۔عدالت نے واضح کیا کہ مسلم پرسنل لا میں شادی کے لیے کوئی مقررہ عمر نہیں ہے بلکہ بلوغت کو بنیاد مانا جاتا ہے، اور عموماً 15 سال کی عمر کو اس کے لیے موزوں تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب “چائلڈ میرج پرہیبیشن ایکٹ’’ میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال رکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔سپریم کورٹ نے این سی پی سی آر سے استفسار کیا کہ جب لڑکی اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ خوشی سے رہ رہی ہے تو آپ کو اس میں مسئلہ کیا ہے؟